محترم اساتذہ کرام اور پیارے طلباء اسلام علیکم!
آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اس بلاگ کا تمام مواد نیچے دیے ہوئے لنک پر منتقل کر دیا گیا۔
آپ مطلوبہ معلومات کے لیے نیچے لنک پر کلک کریں اور ہمارے نئے بلاگ پر تمام پرانی اور مزید نئی تحاریر پڑھیں،
یہاں کلک کریں۔
یا آپ
http://praiseword.blogspot.com/
ہمارے نئے بلاگ پر جائیں۔
Shafi Aqeel ke bare me maloomat
سید ابو الہاشم کی تحریر اُردو کے معروف افسانہ نگار، نثری شاعری کے بانی ہونے کے دعوے دار اور نقاد احمد ہمیش کا انتقال8 ستمبر2013 ء کی شب ہوا جب کہ اُردو اور پنجابی کے مایۂ ناز ادیب، شاعر اور صحافی شفیع عقیل کا اُن سے ایک روز قبل 7ستمبر2013ء اس فانی دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔واضح رہے کہ شفیع عقیل کا اصل نام محمد شفیع تھا اور وہ1930ء میں لاہور چھاونی کے ایک گاؤں تھینسہ میں پیدا ہوئے تھے۔ احمد ہمیش یکم جولائی 1940ء کو ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع بلیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں بانس پار میں پیدا ہوئے تھے۔بقول احمد ہمیش ،وہ ابھی دس برس کے تھے کہ اُن کی والدہ انتقال کر گئیں۔ جلد ہی اُن کے والد نے ایک اور شادی کر لی۔اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی سوتیلی والدہ کا سلوک اُن سے اور اُن کے دوسرے دو بھائیوں اور بہن سے ناروا تھا، جس کی وجہ سے وہ اٹھارہ سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ یہیں آ کر اُنھوں نے شاعری کی ابتدا کی ۔ 1962ء میں احمد ہمیش کی ایک نظم ’’ اور یہ بھی ایک ڈائری‘‘ حنیف رامے کی ادارت میں نکلنے والے جریدے’’نصرت‘‘ میںشائع ہوئی۔ اس نظم کے بارے میں اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ اُردو کی پہلی نثری نظم ہے۔بقول احمد ہمیش(مرحوم)اُن کی پہلی اُردو نثری نظم، جذباتی آہنگ میں ہے اور اس کا عرصۂ تخلیق جنوری 1961ء تھا۔منفردآہنگ کی اُن کے یہ نظم ملاحظہ فرمائیں: تربینی پرساد۔۔۔۔ سرل سبھاؤ کو اپنے باپ کے نام سے جانتا ہے مانتا بھی نہیں اور نہیں نہیں میں گپت دشا کا پہرا، اس کے کمرے میں دو ٹکڑے کر دینے والی سازش بار بار دہرائی ہوئی پھیکی پھکی سے اس پرکار سلا دیتی ہے کہ پھر کایر۔۔۔۔ دبلا جر جر پاکھی اپنے میلے انڈے سینے سے پہلے سوکھے پروں کو دونوں اور پھیلائے بنا بھول جائے ڈوبتے سمے کو جب بوڑھا پاگل پن چھن چھن پروان چڑھے اور بس نہ چلے پراکرت جب مہا سنکھ گھومتے اُڑتے نشانوں میں گھلی ملی اچھائیوں کو لے آتی ہے اس مرکز پر جو کبھی نہ بدلے تو نیلی جہالت ہے سراسر نیلی جہالت ہے یونہی دیکھنے میں بھلی لگتی ہے ورنہ کس نے دیکھا ہے، اس کے سارے خانے خالی ہیں پربھات میں جب وہی گھنٹیاں بجیں گی کچھ دیرجو صدیوں سے کنول توڑنے والے کو ہی سنائی دیتی ہیں تو سرسوتی اُترے گی ودیا تیری جے ہو تربینی پرشاد کے کمرے میں دو ٹکڑے کر دینے والی سازش اچانک ایک ہی جیسے خول چڑھا لیتی ہے اس کی کانپتی انگلیوں پر پرتھوی نہیں۔۔۔۔ گلوب گھوم رہا ہے بال روم سے تھکی ہوئی ننگی گولائیاں اک اک کر کے نکل رہی ہیں سائبان کے تیسرے کونے میں پہلی دھوپ چمکنے لگی ہے پہلا کونا دوسرے کونے کا دشمن ہے اور چوتھے کونے میں دھندلے خاکے ہیں (مطبوعہ ادبی جریدہ ’’تسطیر‘‘ شمارہ 9،10، جولائی 1999ء، بحوالہ ماہنامہ ’’نصرت‘‘ لاہور، 1962ء) احمد ہمیش کے سات افسانوں پر مشتمل پہلا مجموعہ ’’مکھی‘‘ 1968ء میں ہندوستان سے شائع ہوکر دھوم مچا چکا تھا۔ تیس برس بعد 1998ء میں اُن کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’ کہانی مجھے لکھتی ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ احمد ہمیش نثری شاعری میں انتہائی منفرد اُسلوب کے مالک تھے۔اُن کی شاعری کاایک مجموعہ ’’ہمیش نظمیں‘ ‘نثری نظم کا ایک اہم مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی کی دہائی میں اُنھوں نے افسانوں کا ایک انتخاب’’ عصر حاضر کی کہانیاں‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ احمد ہمیش گذشتہ کئی سال سے وہ اپنی دختر انجلا ہمیش کے ساتھ مل کر سہ ماہی ادبی جریدہ ’’تشکیل‘‘ شائع کر رہے تھے۔ اس رسالے کی پیشانی پر ایک فقرہ درج ہوتا تھا، جو بے حد مشہور ہوا: ’’اردو ادب کا شاک انگیز استعارہ‘‘۔ اس جریدے میں چھپنے والے اداریے بھی انتہائی شاک انگیز ہوا کرتے تھے اور اُن میں مختلف ادبی شخصیات کو دھواں دھار تنقیص کا نشانہ بنایا جاتا تھا، جو اکثر اوقات تنقید کی حدوں سے نکل کر ذاتیات میں داخل ہو جایا کرتا تھا۔ انتقال کرجانے والے دوسرے اہم ادیب شفیع عقیل کی پہلی کتاب افسانوں کا مجموعہ’’ بھوکے‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ اُن کی تصانیف میں طنز و مزاح کے مجموعے: ایک آنسو ایک تبسم ،ڈھل گئی رات، تیغ ستم ، باقی سب خیریت ہے اور سرخ،سفید،سیاہ ، پنجابی شاعری کے مجموعے: سوچاں دی زنجیر اور زہر پیالہ، عالمی اور پاکستانی لوک کہانیوں کے مجموعے:جاپانی لوک حکایتیں ،جرمن لوک کہانیاں،ایرانی لوک کہانیاں ،پاکستانی لوک کہانیاں اور پنجابی لوک داستانیں ، سفر نامے سیر وسفر، پیرس تو پھر پیرس ہے اور زندگانی پھر کہاں کے نام اہم ہیں۔ شفیع عقیل نے سیف الملوک، سسی پنوں از ہاشم شاہ اورپنجابی کے پانچ قدیم شاعرنامی کتابیں بھی مدون کیں اور ادب اور ادبی مکالمے، مشہور اہل ِقلم کی گم نام تحریریں اور نامور ادیبوں کا بچپن کے نام سے بھی کتابیں مرتب کیں۔ اُن کا شمار مصوری کے اہم ناقدین میں بھی ہوتا تھا۔ اس موضوع پر اُن کی تصانیف میں :تصویر اور مصور، دو مصور اور پاکستان کے سات مصور سرفہرست ہیں۔ اُنھوں نے مرزا غالبؔ کے کلام اور قائد اعظمؒ کے فرمودات کو بھی پنجابی میں منتقل کیا۔ حکومت ِ پاکستان نے اُنھیں تمغۂ امتیاز عطا کیا تھاجب کہ اُنھوں نے داود ادبی انعام اور خوشحال خان خٹک ایوارڈ بھی حاصل کیے تھے۔الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی بھر پور تخلیقی زندگی گزاری اور عمر کے آخری ایام میںاُنھیں کوئی حسرت نہ تھی، بقول شفیع عقیل: شہر کو چھوڑے برسوں بیتے جھولی میں کوئی آس نہیں ان گلیوں میں پہنچ نہ پائیں ایسا بھی بن باس نہیں ٭…٭…٭ فیس بک پر شمولیت کرنے کے لیے نیچے دئیے گئے لنک پر کلک کریں۔
information about Shafi Aqeel,
طلباء کی سہولت کےلیے شفیع عقیل کے بارے معلومات اردو محفل کی تحریر ہے۔ روزنامہ جنگ کے سنڈے ایڈیشن میں ایک طویل عرصے سے جناب شفیع عقیل، کہ ش ع کے نام سے جانے جاتے ہیں، کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ تبصرہ، کتابوں کے تعارف تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ کبھی کبھی یہ طول بھی پکڑتا ہے، حال ہی میں راقم الحروف کی جناب ابن صفی پر مرتب کردہ کتاب پر یہ تبصرہ دو کالموں تک پھیل گیا اور شفیع صاحب نے اس زمانے کو یاد کیا جب وہ صدر کراچی کے کسی ریستوران میں بیٹھے ہوتے تھے اور باہر ایک غلغلہ بلند ہوتا تھا اور معلوم کرنے پر پتہ چلتا تھا کہ ابن صفی کا تازہ ناول شائع ہوگیا ہے اور اس کے حصول کے لیے طلبگاروں کی صدائیں، دہائیوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ لیکن خیر ہمارا شمار تو ہما شما میں ہوتا ہے، یہاں بڑے بڑے جید لوگوں کو دیکھا کہ شفیع عقیل ان کی کتاب پر تبصرہ نہ کریں تو مصیبت اور کردیں تو اور زیادہ مصیبت۔۔۔۔۔۔ع۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا خود راقم کی متذکرہ کتاب کے عنوان (کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا) کو شفیع صاحب نے چیلنج کردیا تھا کہ یہ درست نہیں ہے، ہم نے تو خیر سر نہیوڑا کر ان کی بات مان لی اور فون پر بھی معذرت کی کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی اور ہم اگلی کتاب کا عنوان "سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا" رکھ دیں گے۔ بعض احباب کی رائے میں شفیع عقیل صاحب کا جنگ میں کیا گیا یہ تعارف یا تبصرہ ایک پوسٹ مارٹم کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ گزشہ دنوں ہمارے ہمدم دیرینہ ایک صاحب ہم سے کہہ رہے تھے کہ بھائی! پچھلے 2 برسوں سے ش ع کے تبصرے دیکھ رہا ہوں، ہمیشہ ایک دبا دبا سا طنز ان کی تحریر میں ہلکورے لے رہا ہوتا ہے۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ کل رات مدیر بیلاگ اور ہمارے بزرگ جناب عزیز جبران انصاری صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے آپ نے آج کے جنگ میں میری کتاب "بذلہ سنجان کراچی" پر شفیع عقیل کا تبصرہ دیکھا ? ہمارے کان کھڑے ہوئے، عرض کیا حضرت! دیکھا تو نہیں ہے لیکن ان کےتبصرے عموما ظالمانہ سے ہوتے ہیں وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ نہیں، یہ کچھ اس کے سوا ہے۔ آپ پہلے اسے دیکھیے، میں ایک جواب بھیج رہا ہوں جسے آپ سماجی رابطوں کی ان ان "ادبی بیٹھکوں" پر آویزاں کردیجیے جہاں آپ ہمہ وقت، جابجا اور جا بیجا موجود رہتے ہیں۔ عرض کیا کہ جناب والا! آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔ ادھر گفتگو سے فارغ ہوکر جب راقم نے جنگ میں بذلہ سنجان کراچی پر تبصرہ دیکھا تو سچ مچ چکرا کر رہ گیا۔ اس قدر تند و تیز کہ کیا کہیے۔ ایک جگہ تو جناب شفیع عقیل نے ہمیں ایسا بدحواس کیا کہ مت پوچھیے۔۔۔۔۔۔ لکھتے ہیں: " قطع نظر دوسرے شہروں کے، کراچی میں تو یہی حال ہے۔ یہاں طنز و مزاح نگاری کی جو گت بنی ہے اور بن رہی ہے، اس کا حساب اب اللہ ہی لے گا۔"" یہاں موجود طنز و مزاح نگاروں کو شنید ہو کہ اللہ میاں اب آپ سے احکامات دین کی بجاآوری کے ساتھ ساتھ مزاح نگار ہونے کا بھی حساب لیں گے۔ یہ چونکہ حقوق العباد میں آتا ہے لہذا اس کا قوی گمان ہے کہ اللہ تعالی اپنی عبادات میں کم بیشی معاف کردے لیکن حقوق العباد میں آنے والے معاملات کو جب تک آپ کے قارئین بشمول جناب شفیع عقیل معاف نہیں کریں گے، گلو خلاصی کی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ یہاں موجود ہمارے کسی دوست نے کہیں غلطی سے شفیع عقیل صاحب کو اپنی مزاح نگاری پر مبنی کتاب تبصرے کے لیے تو نہیں بھیجی ? حال ہی میں ہمارے ایک مہربان دوست کی مزاح نگاری پر مبنی کتاب کی کراچی کے شیرٹن ہوٹل میں تقریب رونمائی تھی، خاکسار کو یہ کہہ کر مدعو کیا گیا تھا کہ "اگر وہ نہ آیا تو یہ تقریب نہ ہوسکے گی"۔ اب سوچ کر خوف سا آرہا ہے کہ خدانخواستہ وہاں کسی صورت شفیع عقیل صاحب موجود ہوتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔
Shafi Aqeel
شفیع عقیل شہر کو چھوڑے برسوں بیتے جھولی میں کوئی آس نہیں - شہر کو چھوڑے برسوں بیتے جھولی میں کوئی آس نہیں ان گلیوں میں پہنچ نہ پائیں ایسا بھی بن باس نہیں جب سے پیار کی مالا پہنی جب سے پیار میں جوگ لیا جس دھرتی نے گود میں پالا وہ دھرتی بھی راس نہیں چاند اتر کر بام پے آیا پلکون پر یہ رات ڈھلی دل کی بات بتائیں کس کو کوئی لٹیرا پاس نہیں رنگ نیارا روپ پیارا پھول کھلے ہیں کیاری میں سوچ سمجھ کر ہار بنانا ان پھولوں میں باس نہیں گیان کا ساغر ،سوچ کی لہریں جیون بھر کا روگ نہیں اس پر دنیا پاگل سمجھے دکھ سکھ کا احساس نہیں دھن دولت کی آگ میں دیکھو تن من دونوں راکھ ہوئے لوبھ کی ماری دنیا یارو کوئی یہاں اب داس نہیں بستی چھوڑی لوگ بھی چھوٹے چھوڑ دئیے وہ رستے بھی آس نراس سبھی کچھ چھوڑا چاہت کی اب پیاس نہیں نہ وہ پیار کی دھوپ روپہلی نہ وہ یاد کے پھول کھلے پاؤں نیچے دھرتی بدلی سر پر کوئی آکاش نہیں
شفیع عقیل
طلباء کی سہولت کےلیے شفیع عقیل کے بارے معلومات اردو محفل کی تحریر ہے۔ روزنامہ جنگ کے سنڈے ایڈیشن میں ایک طویل عرصے سے جناب شفیع عقیل، کہ ش ع کے نام سے جانے جاتے ہیں، کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ تبصرہ، کتابوں کے تعارف تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ کبھی کبھی یہ طول بھی پکڑتا ہے، حال ہی میں راقم الحروف کی جناب ابن صفی پر مرتب کردہ کتاب پر یہ تبصرہ دو کالموں تک پھیل گیا اور شفیع صاحب نے اس زمانے کو یاد کیا جب وہ صدر کراچی کے کسی ریستوران میں بیٹھے ہوتے تھے اور باہر ایک غلغلہ بلند ہوتا تھا اور معلوم کرنے پر پتہ چلتا تھا کہ ابن صفی کا تازہ ناول شائع ہوگیا ہے اور اس کے حصول کے لیے طلبگاروں کی صدائیں، دہائیوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ لیکن خیر ہمارا شمار تو ہما شما میں ہوتا ہے، یہاں بڑے بڑے جید لوگوں کو دیکھا کہ شفیع عقیل ان کی کتاب پر تبصرہ نہ کریں تو مصیبت اور کردیں تو اور زیادہ مصیبت۔۔۔۔۔۔ع۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا خود راقم کی متذکرہ کتاب کے عنوان (کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا) کو شفیع صاحب نے چیلنج کردیا تھا کہ یہ درست نہیں ہے، ہم نے تو خیر سر نہیوڑا کر ان کی بات مان لی اور فون پر بھی معذرت کی کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی اور ہم اگلی کتاب کا عنوان "سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا" رکھ دیں گے۔ بعض احباب کی رائے میں شفیع عقیل صاحب کا جنگ میں کیا گیا یہ تعارف یا تبصرہ ایک پوسٹ مارٹم کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ گزشہ دنوں ہمارے ہمدم دیرینہ ایک صاحب ہم سے کہہ رہے تھے کہ بھائی! پچھلے 2 برسوں سے ش ع کے تبصرے دیکھ رہا ہوں، ہمیشہ ایک دبا دبا سا طنز ان کی تحریر میں ہلکورے لے رہا ہوتا ہے۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ کل رات مدیر بیلاگ اور ہمارے بزرگ جناب عزیز جبران انصاری صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے آپ نے آج کے جنگ میں میری کتاب "بذلہ سنجان کراچی" پر شفیع عقیل کا تبصرہ دیکھا ? ہمارے کان کھڑے ہوئے، عرض کیا حضرت! دیکھا تو نہیں ہے لیکن ان کےتبصرے عموما ظالمانہ سے ہوتے ہیں وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ نہیں، یہ کچھ اس کے سوا ہے۔ آپ پہلے اسے دیکھیے، میں ایک جواب بھیج رہا ہوں جسے آپ سماجی رابطوں کی ان ان "ادبی بیٹھکوں" پر آویزاں کردیجیے جہاں آپ ہمہ وقت، جابجا اور جا بیجا موجود رہتے ہیں۔ عرض کیا کہ جناب والا! آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔ ادھر گفتگو سے فارغ ہوکر جب راقم نے جنگ میں بذلہ سنجان کراچی پر تبصرہ دیکھا تو سچ مچ چکرا کر رہ گیا۔ اس قدر تند و تیز کہ کیا کہیے۔ ایک جگہ تو جناب شفیع عقیل نے ہمیں ایسا بدحواس کیا کہ مت پوچھیے۔۔۔۔۔۔ لکھتے ہیں: " قطع نظر دوسرے شہروں کے، کراچی میں تو یہی حال ہے۔ یہاں طنز و مزاح نگاری کی جو گت بنی ہے اور بن رہی ہے، اس کا حساب اب اللہ ہی لے گا۔"" یہاں موجود طنز و مزاح نگاروں کو شنید ہو کہ اللہ میاں اب آپ سے احکامات دین کی بجاآوری کے ساتھ ساتھ مزاح نگار ہونے کا بھی حساب لیں گے۔ یہ چونکہ حقوق العباد میں آتا ہے لہذا اس کا قوی گمان ہے کہ اللہ تعالی اپنی عبادات میں کم بیشی معاف کردے لیکن حقوق العباد میں آنے والے معاملات کو جب تک آپ کے قارئین بشمول جناب شفیع عقیل معاف نہیں کریں گے، گلو خلاصی کی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ یہاں موجود ہمارے کسی دوست نے کہیں غلطی سے شفیع عقیل صاحب کو اپنی مزاح نگاری پر مبنی کتاب تبصرے کے لیے تو نہیں بھیجی ? حال ہی میں ہمارے ایک مہربان دوست کی مزاح نگاری پر مبنی کتاب کی کراچی کے شیرٹن ہوٹل میں تقریب رونمائی تھی، خاکسار کو یہ کہہ کر مدعو کیا گیا تھا کہ "اگر وہ نہ آیا تو یہ تقریب نہ ہوسکے گی"۔ اب سوچ کر خوف سا آرہا ہے کہ خدانخواستہ وہاں کسی صورت شفیع عقیل صاحب موجود ہوتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔
شفیع عقیل
طلباء کی سہولت کےلیے شفیع عقیل کے بارے معلومات اردو محفل کی تحریر ہے۔ روزنامہ جنگ کے سنڈے ایڈیشن میں ایک طویل عرصے سے جناب شفیع عقیل، کہ ش ع کے نام سے جانے جاتے ہیں، کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ تبصرہ، کتابوں کے تعارف تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ کبھی کبھی یہ طول بھی پکڑتا ہے، حال ہی میں راقم الحروف کی جناب ابن صفی پر مرتب کردہ کتاب پر یہ تبصرہ دو کالموں تک پھیل گیا اور شفیع صاحب نے اس زمانے کو یاد کیا جب وہ صدر کراچی کے کسی ریستوران میں بیٹھے ہوتے تھے اور باہر ایک غلغلہ بلند ہوتا تھا اور معلوم کرنے پر پتہ چلتا تھا کہ ابن صفی کا تازہ ناول شائع ہوگیا ہے اور اس کے حصول کے لیے طلبگاروں کی صدائیں، دہائیوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ لیکن خیر ہمارا شمار تو ہما شما میں ہوتا ہے، یہاں بڑے بڑے جید لوگوں کو دیکھا کہ شفیع عقیل ان کی کتاب پر تبصرہ نہ کریں تو مصیبت اور کردیں تو اور زیادہ مصیبت۔۔۔۔۔۔ع۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا خود راقم کی متذکرہ کتاب کے عنوان (کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا) کو شفیع صاحب نے چیلنج کردیا تھا کہ یہ درست نہیں ہے، ہم نے تو خیر سر نہیوڑا کر ان کی بات مان لی اور فون پر بھی معذرت کی کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی اور ہم اگلی کتاب کا عنوان "سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا" رکھ دیں گے۔ بعض احباب کی رائے میں شفیع عقیل صاحب کا جنگ میں کیا گیا یہ تعارف یا تبصرہ ایک پوسٹ مارٹم کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ گزشہ دنوں ہمارے ہمدم دیرینہ ایک صاحب ہم سے کہہ رہے تھے کہ بھائی! پچھلے 2 برسوں سے ش ع کے تبصرے دیکھ رہا ہوں، ہمیشہ ایک دبا دبا سا طنز ان کی تحریر میں ہلکورے لے رہا ہوتا ہے۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ کل رات مدیر بیلاگ اور ہمارے بزرگ جناب عزیز جبران انصاری صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے آپ نے آج کے جنگ میں میری کتاب "بذلہ سنجان کراچی" پر شفیع عقیل کا تبصرہ دیکھا ? ہمارے کان کھڑے ہوئے، عرض کیا حضرت! دیکھا تو نہیں ہے لیکن ان کےتبصرے عموما ظالمانہ سے ہوتے ہیں وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ نہیں، یہ کچھ اس کے سوا ہے۔ آپ پہلے اسے دیکھیے، میں ایک جواب بھیج رہا ہوں جسے آپ سماجی رابطوں کی ان ان "ادبی بیٹھکوں" پر آویزاں کردیجیے جہاں آپ ہمہ وقت، جابجا اور جا بیجا موجود رہتے ہیں۔ عرض کیا کہ جناب والا! آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔ ادھر گفتگو سے فارغ ہوکر جب راقم نے جنگ میں بذلہ سنجان کراچی پر تبصرہ دیکھا تو سچ مچ چکرا کر رہ گیا۔ اس قدر تند و تیز کہ کیا کہیے۔ ایک جگہ تو جناب شفیع عقیل نے ہمیں ایسا بدحواس کیا کہ مت پوچھیے۔۔۔۔۔۔ لکھتے ہیں: " قطع نظر دوسرے شہروں کے، کراچی میں تو یہی حال ہے۔ یہاں طنز و مزاح نگاری کی جو گت بنی ہے اور بن رہی ہے، اس کا حساب اب اللہ ہی لے گا۔"" یہاں موجود طنز و مزاح نگاروں کو شنید ہو کہ اللہ میاں اب آپ سے احکامات دین کی بجاآوری کے ساتھ ساتھ مزاح نگار ہونے کا بھی حساب لیں گے۔ یہ چونکہ حقوق العباد میں آتا ہے لہذا اس کا قوی گمان ہے کہ اللہ تعالی اپنی عبادات میں کم بیشی معاف کردے لیکن حقوق العباد میں آنے والے معاملات کو جب تک آپ کے قارئین بشمول جناب شفیع عقیل معاف نہیں کریں گے، گلو خلاصی کی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ یہاں موجود ہمارے کسی دوست نے کہیں غلطی سے شفیع عقیل صاحب کو اپنی مزاح نگاری پر مبنی کتاب تبصرے کے لیے تو نہیں بھیجی ? حال ہی میں ہمارے ایک مہربان دوست کی مزاح نگاری پر مبنی کتاب کی کراچی کے شیرٹن ہوٹل میں تقریب رونمائی تھی، خاکسار کو یہ کہہ کر مدعو کیا گیا تھا کہ "اگر وہ نہ آیا تو یہ تقریب نہ ہوسکے گی"۔ اب سوچ کر خوف سا آرہا ہے کہ خدانخواستہ وہاں کسی صورت شفیع عقیل صاحب موجود ہوتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔
Book Reading, کتاب بہترین ساتھی
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بڑھ کر کتابوں کا مطالعہ سب کی نہیں تاہم سنجیدہ ذہن پڑھے لکھے فرد کی خواہش ضرور ہوتی ہے جس پر وہ گاہے گاہے عمل کی کوشش بھی ضرور کرتا ہے۔ مطالعے کا شوق نہ صرف ذہنی تناﺅ کوختم کرنے کا بہتری ذریعہ ہے بلکہ مثبت سوچ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے مطالعہ کا شوق لوگوں سے دوستی کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے سابقہ پڑتا ہے اور یہی کتابیں ہمیں زندگی کے نشیب و فراز، طرز، بودوباش، رہن سہن کے آدابِ زندگی، بلند پایہ مصنفین کے خیالات اور حکیمانہ باتیں ہم تک پہنچاتی ہیں۔ کتابیں تا دمِ حیات زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین رفیق، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔ کتابوں سے دوستی کے چند گنے چنے فوائد ہی نہیں بلکہکتب بینی کے فوائد اتنے کثیر ہیں کہ ہم ان کا شمار انگلیوں پر نہیں کرسکتے۔ کتابیں ہماری رفیق تنہائی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور مسائلِ حیات پر ان افکار کا جو ذخیرہ ملتا ہے ان سے مستفید ہوکر ہم بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔ کتب بینی ۔۔۔ ایک نہایت مفید مشغلہ ہے ۔ یہ علم میں اضافے اور پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نہایت موثر نسخہ ہے ۔ صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف ’الجاحظ‘ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا : کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا ۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ مطالعہ کتب سے نہ صرف، ہماری ذہنی نشونما ہوتی ہے بلکہ پریشانی کے عالم میں یہ ہماری دلچسپی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ایک اچھی کتاب بہترین غذا بھی ہوتی ہے۔ کتابوں میں جو علوم کا خزانہ موجود ہوتا ہے وہ لازوال ہے۔ گردشِ روز گار پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوتا یہ اپنے طلب گاروں اور شیدائیوں کی تشنگی دور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت ہر انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ کسی سے بے وفائی نہیں کرتی۔ دولت ِ دنیا چھن سکتی ہے مگر کتب بینی سے حاصل کیا ہوا علم چرایا نہیں جاسکتا۔ جب آپ پڑھتے ہوئے کتاب کے ورق پر ورق الٹتے جائیں گے تو آپ کی ذہانت بڑھتی رہے گی اور کئی مفید باتیں آپ کے ذہن میں اپنے لیے جگہ بناتی رہیں گی ۔ سوانحِ حیات پر لکھی ہوئی کتابوں سے آپ کو عام لوگوں کی پسند کی باتیں بھی معلوم ہوتی رہیں گی اور بادشاہوں کے طور طریقوں کا بھی پتا چلتا رہے گا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات آپ ایک ماہ کی کتب بینی سے اتنا کچھ سیکھ جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کی زبانی صدی بھر میں سنی ہوئی باتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ کتب بینی سے انسان کے اخلاق و کردار پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ کتابیں انسانوں کو برائی کی ترغیب بھی دے سکتی ہیں۔ اس لئے مطالعہ کتب کےلئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کتابیں چنتے وقت احتیاط کرنی چاہئے کہ ان کا موضوع تعمیری رحجانات کا حامل ہو۔ منحرف اخلاق اور فحش قسم کی کتابیں ہماری بدترین دشمن تو بن سکتی ہیں دوست نہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں تو ہماری مراد ان کتابوں سے ہے جس سے ہمارے کردار کی تعمیر میں مدد ملے۔ ہماری قومی اور ملی زندگی میں صحت مند رحجانات کو فروغ حاصل ہو۔ ہماری فلاح و بہبود اور ترقی و عروج کی راہیں ہموار ہوں۔ دل میں وطن اور اہلِ وطن کی محبت کا جذبہ ابھرے اور عالمگیرانسانیت، اخوت اور بھائی چارگی کا احساس پیدا ہو، عظمت آدم کی سربلندی حاصل ہو۔ پڑھنے کے بیشمار فائدے ہیں ۔ لیکن نقصان ذرا بھی نہیں ہوتا ۔ آپ کو کسی استاد کے دروازے پر انتظار کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑتی جو آپ کی فیس کا منتظر رہتا ہے ۔ اور ایسے شخص سے بھی نہیں سیکھنا پڑتا جو جانتا تو بہت کچھ ہے مگر اس کی عادات و اطوار بڑے ناپسندیدہ ہوتے ہیں ۔ کتاب رات کو بھی آپ کا حکم اسی طرح مانتی ہے جیسے دن کو ، خواہ آپ سفر میں ہوں یا گھر میں بیٹھے ہوں ۔ سفر کے دوران میں ہونے والی اکتاہٹ سے نجات کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی چیز کارآمد نہیں ہوتی ۔ کتاب ایک ایسے استاد کی مانند ہے کہ آپ کو جب بھی ضرورت پڑے ، آپ اسے اپنے پاس پائیں گے ۔ یہ ایسا ’استاد‘ ہے کہ آپ خواہ اسے کچھ نہ دیں ، یہ آپ کو دیتا رہے گا ۔ اس کے پاس جتنا کچھ ہے ، یہ سب کھول کر آپ کے سامنے رکھ دے گا ۔ اگر آپ اس سے لاپروائی کریں تب بھی یہ آپ کی فرمانبرداری کرتا رہے گا ۔ سب لوگ آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائیں تو بھی یہ بدستور آپ کے دوش بدوش کھڑا رہے گا ۔ کتابیں پڑھنے کے فوائد پڑھنے سے فصاحت و بلاغت کی صفت پیدا ہو جاتی ہے ۔ پڑھنے سے ذہن کھلتا ہے اور خیالات میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے ۔ پڑھنے سے علم میں اضافہ ، یادداشت میں وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے ۔ پڑھنے سے غم اور بےچینی دور ہو جاتی ہے ۔ پڑھنے کے دوران میں انسان جھوٹ بولنے اور فریب کرنے سے بچا رہتا ہے ۔ پڑھنے والا دوسروں کے تجربات سے مستفید ہوتا ہے اور بلند پایہ مصنفین کا ذہنی طور پر ہمسفر بن جاتا ہے ۔ پڑھنے والا اوقات کے ضیاع سے محفوظ رہتا ہے ۔ پڑھنے کی عادت کی وجہ سے انسان کتاب میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ سستی اور کاہلی سے مغلوب نہیں ہونے پاتا ۔ کتابوں کا مطالعہ سب کی نہیں تاہم سنجیدہ ذہن پڑھے لکھے فرد کی خواہش ضرور ہوتی ہے جس پر وہ گاہے گاہے عمل کی کوشش بھی ضرور کرتا ہے۔ مطالعے کا شوق نہ صرف ذہنی تناﺅ کوختم کرنے کا بہتری ذریعہ ہے بلکہ مثبت سوچ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، مطالعہ کا شوق لوگوں سے دوستی کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے سابقہ پڑتا ہے اور یہی کتابیں ہمیں زندگی کے نشیب و فراز، طرز، بودوباش، رہن سہن کے آدابِ زندگی، بلند پایہ مصنفین کے خیالات اور حکیمانہ باتیں ہم تک پہنچاتی ہیں۔ کتابیں تا دمِ حیات زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین رفیق، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔ کتابوں سے دوستی کے چند گنے چنے فوائد ہی نہیں بلکہکتب بینی کے فوائد اتنے کثیر ہیں کہ ہم ان کا شمار انگلیوں پر نہیں کرسکتے۔ کتابیں ہماری رفیق تنہائی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور مسائلِ حیات پر ان افکار کا جو ذخیرہ ملتا ہے ان سے مستفید ہوکر ہم بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔ کتب بینی ۔۔۔ ایک نہایت مفید مشغلہ ہے ۔ یہ علم میں اضافے اور پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نہایت موثر نسخہ ہے ۔ صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف ’الجاحظ‘ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا : کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا ۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ جب آپ پڑھتے ہوئے کتاب کے ورق پر ورق الٹتے جائیں گے تو آپ کی ذہانت بڑھتی رہے گی اور کئی مفید باتیں آپ کے ذہن میں اپنے لیے جگہ بناتی رہیں گی ۔ سوانحِ حیات پر لکھی ہوئی کتابوں سے آپ کو عام لوگوں کی پسند کی باتیں بھی معلوم ہوتی رہیں گی اور بادشاہوں کے طور طریقوں کا بھی پتا چلتا رہے گا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات آپ ایک ماہ کی کتب بینی سے اتنا کچھ سیکھ جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کی زبانی صدی بھر میں سنی ہوئی باتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ کتب بینی سے انسان کے اخلاق و پڑھنے کے بیشمار فائدے ہیں ۔ لیکن نقصان ذرا بھی نہیں ہوتا ۔ آپ کو کسی استاد کے دروازے پر انتظار کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑتی جو آپ کی فیس کا منتظر رہتا ہے ۔ اور ایسے شخص سے بھی نہیں سیکھنا پڑتا جو جانتا تو بہت کچھ ہے مگر اس کی عادات و اطوار بڑے ناپسندیدہ ہوتے ہیں ۔ کتاب رات کو بھی آپ کا حکم اسی طرح مانتی ہے جیسے دن کو ، خواہ آپ سفر میں ہوں یا گھر میں بیٹھے ہوں ۔ سفر کے دوران میں ہونے والی اکتاہٹ سے نجات کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی چیز کارآمد نہیں ہوتی ۔ کتاب ایک ایسے استاد کی مانند ہے کہ آپ کو جب بھی ضرورت پڑے ، آپ اسے اپنے پاس پائیں گے ۔ یہ ایسا ’استاد‘ ہے کہ آپ خواہ اسے کچھ نہ دیں ، یہ آپ کو دیتا رہے گا ۔ اس کے پاس جتنا کچھ ہے ، یہ سب کھول کر آپ کے سامنے رکھ دے گا ۔ اگر آپ اس سے لاپروائی کریں تب بھی یہ آپ کی فرمانبرداری کرتا رہے گا ۔ سب لوگ آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائیں تو بھی یہ بدستور آپ کے دوش بدوش کھڑا رہے گا ۔
MS Office me Urdu likhna, Urdu Typing in MS Word, Urdu Typing in Computer
السلام علیکم دوستو!
آج میں آپ کو کمپیوٹر کی مشہور اپلی کیشن ایم ایس ورڈ میں اردو لکھنے کا طریقہ کار بتا رہا ہوں۔ آپ اردو لکھنے کے حوالے سے جانتے ہیں کہ مشہور اپلی کیشن ان پیج اور کچھ اس سےملتے جلتے دوسرے سافٹ ویر مل جاتے ہیں۔ مگر یہ تمام سافٹ ویر بالکل سادہ اندازہ میں لکھائی اور ڈیزائین تک ہی محدودہیں۔
MS Word چونکہ انتہائی وسعت میں کام کرتا ہے اور انگریزی لکھنے اور ڈیزائین تیار کرنے اور لکھائی کو مختلف اشکال اور سٹائل میں اوپر نیچے یا آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نکات کو نمبر یا کوئی اور نشان دے کر واضح کیا جا سکاتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ایپلی کیشن انگریزی لکھنے اور ریاضی کے لیے انتہائی مفید ہے۔ مگر ہم اسی ایپلی کیشن کو اردو کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اس میں دی گئی تمام سہولیات اور فنکشنز کو اردو لکھائی کے ساتھ ساتھ صفحے پر ڈیزائین لگانے کے لیے بالکل اسی طرح استعمال کر سکتے ہیں جیسے کہ انگریزی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اب میں آپ کو اس کا طریقہ بتاتا ہوں۔ ایم اس ورڈ میں اردو لکھنے کے لیے آپ کو دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک اردو زبان کا فانٹ اور دوسرا اردو لکھنے والا کی بورڈ۔ یہ دونوں ایپلی کیشنز آپ کو گوگل سرچ کرنے سے بھی مل جائیں گی۔ آپ کی آسانی کےلیے یہاں بھی ان ایپلی کیشنز کو اپلوڈ کیا گیا ہے۔ اردو فانٹ کےلیے دو طرح کی ایپلی کیشنز ہیں ایک انسٹال کرنے والی جبکہ دوسری کاپی پیسٹ کرنے والی۔ جبکہ کی بورڈ کو انسٹال ہی کرنا ہو گا۔ اردو فانٹ کو انسٹال کرنے والی ایپلی کیشن جس کا نام پاک اردو انسٹالر ہے یہاں سے ڈاون لوڈ کریں کریں۔ اور جیسے آپ دوسرے سافٹ ویئر انسٹال کرتےہیں بالکل اسی طرح اسے بھی انسٹال کریں۔
آخر میں کمپیوٹر کو فوری طور پر یا بعد میں ری سٹارٹ کرنے کے آپشن ہوں گے۔ آپ بعد میں ری سٹارٹ کر سکتے ہیں۔ اس سے سافٹ ویئر کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں بڑے گا۔ فانٹ انسٹال کرنے کے بعد کی بورڈ انسٹال کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو کی بورڈ آپ بہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں
setup.exe ۔ کے ذریعے کی بورڈ انسٹال کریں۔ اب کمپیوٹر ری سٹارٹ کریں۔ بعض اوقات کمپیوٹر خود بخود دونوں زبانیں کمپیوٹر کے ٹاسک بار پر دکھاتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات اس کی سیٹنگ کرنی پڑتی ہے۔ اگر آپ پہلی بار استعمال کر رہے ہیں تو اس کی سیٹنگ کے لیے درج ذیل طریقہ کار اپنائیں۔ امید ہے آپ کو یہ طریقہ بہت آسان لگے گا۔
اگر آپ ونڈو ایکس پی استعمال کررہے ہیں تو یہ طریقہ اپنائیں۔
اس طریقے کا تصویری مواد جلد ہی شائع کر دیا جائے گا۔
< /font>
Urdu Zaban Ki Tadrees
السلام علیکم قارئین!
Praise Word کی جانب سے طلباء کے لیے اردو کے حوالے سے معلومات، کہانیاں اور تعلیمی مواد کی فراہمی کی کوشش کی ہے امید ہے آپ مستفید ہونگے۔ یہ ایک چھوٹا سا ادارہ ہے جو طلباء کے ساتھ ساتھ تدریس سے وابسطہ اساتذہ کرام اور اردو کے قارئین کی سہولت کوشش کر رہا ہے۔ اس ادارے کے پرنسپل اور ممبران اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے شعبون سے بھی وابستہ ہیں جو تعلیم و تحقیق پر کام کر رہے ہیں۔ درسی کتب، کالم نگاری اور اردو تحاریر میں تجربے کی بناء پر تعلیمی میدان میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ کسی بھی مضمون، درسی کتاب، ناول اور تحریر کے متعلق جاننے کےلیے آپ اس بلاگ پرآئیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر کسی بھی قوم کی بقاء اور ثقافت کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اس کی زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ دراصل کسی بھی خطے کا باشندہ اپنی زبان اور لب ولہجے سے پہچانا جاتا ہے۔ ہمارے تعارف کا بہت سا حصہ ہماری بول چال، لب ولہجہ اور وضع قطع سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اپنی خفیہ پہچان کو بیان کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ہم اپنی قومی اور مادری زبان میں ہی اچھے طریقے سے بیان کر سکتے ہیں۔ ہر زبان کے قواعد وضوابط ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس کا حسن برقرار رہتا ہے اور وہ دوسری زبانوں کو سمجھنے میں بھی معاون ہوتی ہے۔ اردو چونکہ ہماری قومی اور بعض علاقوں کی مادری زبان بھی ہے مگر اس کے چاشنی شائید کم لوگ ہی محسوس کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اس کے تلفظ اور انداز گفتگو سے انجان ہونا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو یہاں الفاظ کے تلفظ کے ساتھ ساتھ ان کے معانی اور استعمال کے مواقع کے متعلق زیادہ سے زیادہ اور معتبر معلومات فراہم کریں۔ آپ اس بلاگ پر مطالعہ کریں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کریں۔ آپ کی رائے ہمارے لیے قابلِ قدر ہو گی۔
دعاؤں کا طالب محمد عباس اؔحمد
Praise Word کی جانب سے طلباء کے لیے اردو کے حوالے سے معلومات، کہانیاں اور تعلیمی مواد کی فراہمی کی کوشش کی ہے امید ہے آپ مستفید ہونگے۔ یہ ایک چھوٹا سا ادارہ ہے جو طلباء کے ساتھ ساتھ تدریس سے وابسطہ اساتذہ کرام اور اردو کے قارئین کی سہولت کوشش کر رہا ہے۔ اس ادارے کے پرنسپل اور ممبران اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے شعبون سے بھی وابستہ ہیں جو تعلیم و تحقیق پر کام کر رہے ہیں۔ درسی کتب، کالم نگاری اور اردو تحاریر میں تجربے کی بناء پر تعلیمی میدان میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ کسی بھی مضمون، درسی کتاب، ناول اور تحریر کے متعلق جاننے کےلیے آپ اس بلاگ پرآئیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر کسی بھی قوم کی بقاء اور ثقافت کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اس کی زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ دراصل کسی بھی خطے کا باشندہ اپنی زبان اور لب ولہجے سے پہچانا جاتا ہے۔ ہمارے تعارف کا بہت سا حصہ ہماری بول چال، لب ولہجہ اور وضع قطع سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اپنی خفیہ پہچان کو بیان کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ہم اپنی قومی اور مادری زبان میں ہی اچھے طریقے سے بیان کر سکتے ہیں۔ ہر زبان کے قواعد وضوابط ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس کا حسن برقرار رہتا ہے اور وہ دوسری زبانوں کو سمجھنے میں بھی معاون ہوتی ہے۔ اردو چونکہ ہماری قومی اور بعض علاقوں کی مادری زبان بھی ہے مگر اس کے چاشنی شائید کم لوگ ہی محسوس کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اس کے تلفظ اور انداز گفتگو سے انجان ہونا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو یہاں الفاظ کے تلفظ کے ساتھ ساتھ ان کے معانی اور استعمال کے مواقع کے متعلق زیادہ سے زیادہ اور معتبر معلومات فراہم کریں۔ آپ اس بلاگ پر مطالعہ کریں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کریں۔ آپ کی رائے ہمارے لیے قابلِ قدر ہو گی۔
دعاؤں کا طالب محمد عباس اؔحمد
Praise Word
<
!السلام علیکم قارئین!
Praise Word
کی جانب سے طلباء کے لیے اردو کے حوالے سے معلومات، کہانیاں اور تعلیمی مواد کی فراہمی کی کوشش کی ہے امید ہے آپ مستفید ہونگے۔ یہ ایک چھوٹا سا ادارہ ہے جو طلباء کے ساتھ ساتھ تدریس سے وابسطہ اساتذہ کرام اور اردو کے قارئین کی سہولت کوشش کر رہا ہے۔ اس ادارے کے پرنسپل اور ممبران اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے شعبون سے بھی وابستہ ہیں جو تعلیم و تحقیق پر کام کر رہے ہیں۔ درسی کتب، کالم نگاری اور اردو تحاریر میں تجربے کی بناء پر تعلیمی میدان میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ کسی بھی مضمون، درسی کتاب، ناول اور تحریر کے متعلق جاننے کےلیے آپ اس بلاگ پرآئیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی بقاء اور ثقافت کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اس کی زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ دراصل کسی بھی خطے کا باشندہ اپنی زبان اور لب ولہجے سے پہچانا جاتا ہے۔ ہمارے تعارف کا بہت سا حصہ ہماری بول چال، لب ولہجہ اور وضع قطع سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اپنی خفیہ پہچان کو بیان کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ہم اپنی قومی اور مادری زبان میں ہی اچھے طریقے سے بیان کر سکتے ہیں۔ ہر زبان کے قواعد وضوابط ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس کا حسن برقرار رہتا ہے اور وہ دوسری زبانوں کو سمجھنے میں بھی معاون ہوتی ہے۔ اردو چونکہ ہماری قومی اور بعض علاقوں کی مادری زبان بھی ہے مگر اس کے چاشنی شائید کم لوگ ہی محسوس کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اس کے تلفظ اور انداز گفتگو سے انجان ہونا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو یہاں الفاظ کے تلفظ کے ساتھ ساتھ ان کے معانی اور استعمال کے مواقع کے متعلق زیادہ سے زیادہ اور معتبر معلومات فراہم کریں۔ آپ اس بلاگ پر مطالعہ کریں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کریں۔ آپ کی رائے ہمارے لیے قابلِ قدر ہو گی۔
دعاؤں کا طالب محمد احمد
< /font>
Lafz Hai ki Mushkil
آپ کا مطلوبہ مواد نیچے دیے گئے لنک پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
یہاں کلک کریں
http://praiseword.blogspot.com/2016/08/urud-writting-problems.html
یہاں کلک کریں
http://praiseword.blogspot.com/2016/08/urud-writting-problems.html
yome takbeer
آپ کا مطلوبہ مواد نیچے دیے گئے لنک پر منتقل کر دیا گیا۔
یہاں کلک کریں
http://praiseword.blogspot.com/
یہاں کلک کریں
http://praiseword.blogspot.com/
Subscribe to:
Posts (Atom)