سید ابو الہاشم کی تحریر اُردو کے معروف افسانہ نگار، نثری شاعری کے بانی ہونے کے دعوے دار اور نقاد احمد ہمیش کا انتقال8 ستمبر2013 ء کی شب ہوا جب کہ اُردو اور پنجابی کے مایۂ ناز ادیب، شاعر اور صحافی شفیع عقیل کا اُن سے ایک روز قبل 7ستمبر2013ء اس فانی دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔واضح رہے کہ شفیع عقیل کا اصل نام محمد شفیع تھا اور وہ1930ء میں لاہور چھاونی کے ایک گاؤں تھینسہ میں پیدا ہوئے تھے۔ احمد ہمیش یکم جولائی 1940ء کو ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع بلیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں بانس پار میں پیدا ہوئے تھے۔بقول احمد ہمیش ،وہ ابھی دس برس کے تھے کہ اُن کی والدہ انتقال کر گئیں۔ جلد ہی اُن کے والد نے ایک اور شادی کر لی۔اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی سوتیلی والدہ کا سلوک اُن سے اور اُن کے دوسرے دو بھائیوں اور بہن سے ناروا تھا، جس کی وجہ سے وہ اٹھارہ سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ یہیں آ کر اُنھوں نے شاعری کی ابتدا کی ۔ 1962ء میں احمد ہمیش کی ایک نظم ’’ اور یہ بھی ایک ڈائری‘‘ حنیف رامے کی ادارت میں نکلنے والے جریدے’’نصرت‘‘ میںشائع ہوئی۔ اس نظم کے بارے میں اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ اُردو کی پہلی نثری نظم ہے۔بقول احمد ہمیش(مرحوم)اُن کی پہلی اُردو نثری نظم، جذباتی آہنگ میں ہے اور اس کا عرصۂ تخلیق جنوری 1961ء تھا۔منفردآہنگ کی اُن کے یہ نظم ملاحظہ فرمائیں: تربینی پرساد۔۔۔۔ سرل سبھاؤ کو اپنے باپ کے نام سے جانتا ہے مانتا بھی نہیں اور نہیں نہیں میں گپت دشا کا پہرا، اس کے کمرے میں دو ٹکڑے کر دینے والی سازش بار بار دہرائی ہوئی پھیکی پھکی سے اس پرکار سلا دیتی ہے کہ پھر کایر۔۔۔۔ دبلا جر جر پاکھی اپنے میلے انڈے سینے سے پہلے سوکھے پروں کو دونوں اور پھیلائے بنا بھول جائے ڈوبتے سمے کو جب بوڑھا پاگل پن چھن چھن پروان چڑھے اور بس نہ چلے پراکرت جب مہا سنکھ گھومتے اُڑتے نشانوں میں گھلی ملی اچھائیوں کو لے آتی ہے اس مرکز پر جو کبھی نہ بدلے تو نیلی جہالت ہے سراسر نیلی جہالت ہے یونہی دیکھنے میں بھلی لگتی ہے ورنہ کس نے دیکھا ہے، اس کے سارے خانے خالی ہیں پربھات میں جب وہی گھنٹیاں بجیں گی کچھ دیرجو صدیوں سے کنول توڑنے والے کو ہی سنائی دیتی ہیں تو سرسوتی اُترے گی ودیا تیری جے ہو تربینی پرشاد کے کمرے میں دو ٹکڑے کر دینے والی سازش اچانک ایک ہی جیسے خول چڑھا لیتی ہے اس کی کانپتی انگلیوں پر پرتھوی نہیں۔۔۔۔ گلوب گھوم رہا ہے بال روم سے تھکی ہوئی ننگی گولائیاں اک اک کر کے نکل رہی ہیں سائبان کے تیسرے کونے میں پہلی دھوپ چمکنے لگی ہے پہلا کونا دوسرے کونے کا دشمن ہے اور چوتھے کونے میں دھندلے خاکے ہیں (مطبوعہ ادبی جریدہ ’’تسطیر‘‘ شمارہ 9،10، جولائی 1999ء، بحوالہ ماہنامہ ’’نصرت‘‘ لاہور، 1962ء) احمد ہمیش کے سات افسانوں پر مشتمل پہلا مجموعہ ’’مکھی‘‘ 1968ء میں ہندوستان سے شائع ہوکر دھوم مچا چکا تھا۔ تیس برس بعد 1998ء میں اُن کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’ کہانی مجھے لکھتی ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ احمد ہمیش نثری شاعری میں انتہائی منفرد اُسلوب کے مالک تھے۔اُن کی شاعری کاایک مجموعہ ’’ہمیش نظمیں‘ ‘نثری نظم کا ایک اہم مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی کی دہائی میں اُنھوں نے افسانوں کا ایک انتخاب’’ عصر حاضر کی کہانیاں‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ احمد ہمیش گذشتہ کئی سال سے وہ اپنی دختر انجلا ہمیش کے ساتھ مل کر سہ ماہی ادبی جریدہ ’’تشکیل‘‘ شائع کر رہے تھے۔ اس رسالے کی پیشانی پر ایک فقرہ درج ہوتا تھا، جو بے حد مشہور ہوا: ’’اردو ادب کا شاک انگیز استعارہ‘‘۔ اس جریدے میں چھپنے والے اداریے بھی انتہائی شاک انگیز ہوا کرتے تھے اور اُن میں مختلف ادبی شخصیات کو دھواں دھار تنقیص کا نشانہ بنایا جاتا تھا، جو اکثر اوقات تنقید کی حدوں سے نکل کر ذاتیات میں داخل ہو جایا کرتا تھا۔ انتقال کرجانے والے دوسرے اہم ادیب شفیع عقیل کی پہلی کتاب افسانوں کا مجموعہ’’ بھوکے‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ اُن کی تصانیف میں طنز و مزاح کے مجموعے: ایک آنسو ایک تبسم ،ڈھل گئی رات، تیغ ستم ، باقی سب خیریت ہے اور سرخ،سفید،سیاہ ، پنجابی شاعری کے مجموعے: سوچاں دی زنجیر اور زہر پیالہ، عالمی اور پاکستانی لوک کہانیوں کے مجموعے:جاپانی لوک حکایتیں ،جرمن لوک کہانیاں،ایرانی لوک کہانیاں ،پاکستانی لوک کہانیاں اور پنجابی لوک داستانیں ، سفر نامے سیر وسفر، پیرس تو پھر پیرس ہے اور زندگانی پھر کہاں کے نام اہم ہیں۔ شفیع عقیل نے سیف الملوک، سسی پنوں از ہاشم شاہ اورپنجابی کے پانچ قدیم شاعرنامی کتابیں بھی مدون کیں اور ادب اور ادبی مکالمے، مشہور اہل ِقلم کی گم نام تحریریں اور نامور ادیبوں کا بچپن کے نام سے بھی کتابیں مرتب کیں۔ اُن کا شمار مصوری کے اہم ناقدین میں بھی ہوتا تھا۔ اس موضوع پر اُن کی تصانیف میں :تصویر اور مصور، دو مصور اور پاکستان کے سات مصور سرفہرست ہیں۔ اُنھوں نے مرزا غالبؔ کے کلام اور قائد اعظمؒ کے فرمودات کو بھی پنجابی میں منتقل کیا۔ حکومت ِ پاکستان نے اُنھیں تمغۂ امتیاز عطا کیا تھاجب کہ اُنھوں نے داود ادبی انعام اور خوشحال خان خٹک ایوارڈ بھی حاصل کیے تھے۔الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی بھر پور تخلیقی زندگی گزاری اور عمر کے آخری ایام میںاُنھیں کوئی حسرت نہ تھی، بقول شفیع عقیل: شہر کو چھوڑے برسوں بیتے جھولی میں کوئی آس نہیں ان گلیوں میں پہنچ نہ پائیں ایسا بھی بن باس نہیں ٭…٭…٭ فیس بک پر شمولیت کرنے کے لیے نیچے دئیے گئے لنک پر کلک کریں۔
No comments:
Post a Comment