کلاس دہم اردو ادب سبق۔ نام دیو مالی (خلاصہ)
عبد الحق1870ء - 1962ء
عبد الحق1870ء - 1962ء
نام دیو مالی کا کردار محنت کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔ مولوی عبدالحق کے اس کردار کے ذریعے محنت کی ترغیب دی ہے۔ کام سے لگن اور حسنِ خُلق ہی انسانیت کی اصل معراج ہے۔ نام دیو مای مقبرہ رابعہ دورانی اورنگ آباد ے باغ میں مالی تھا۔ اگرچہ نیچ ذات (ڈھیڑ) سے تعلق رکھتا تھا مگر نام دیو نیکی، حسن اخلاق اور سچائی کا مجسمہ تھا۔ یہ خوبیاں کسی کی میراث نہیں ہوتیں بلکہ ہر شخصیت کا حصہ بن سکتی ہیں۔
مقبرے کا باغ مصنف کی نگرانی میں تھا جس کی رہائش بھی اسی احاطے میں تھی جہاں باغ کی تعمیر کا کام نام دیو کے سپرد کیا گیا تھا۔ کمرے کی کھڑکی سے جب بھی مصنف باغ کی طرف دیکھتا نام دیو کو کام میں مصروف پاتا۔ کبھی پودے کا تھانولا صاف کر رہا ہے تو کچھی کانٹ چھانٹ کرتا ہے۔ کبھی پانی ڈالتا ہے تو کچھی ہر رخ سے پودے کو دیکھتے ہوئے خوش ہوتا اور مسکراتا ہے۔ سچ ہے کہ کام اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں لذت آنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر مصنف بھی اپنا کام چھوڑ کر نام دیو کی طرف متوجہ ہو جاتا۔
نام دیو پودے کو پیار سے دیکھتا، پیار کرتا اور اس کے پاس بیٹھ جاتا جیسے اس سے باتیں کر رہا ہو۔ جیسے جیسے پودے بڑھتے نام دیو کا دل بھی جوان ہوتا جاتا۔ اگر کسی پودے کو کوئی بیماری لگ جاتی تو دیو کے دل تب تک چین نہ آتا جب تک اسے ٹھیک نہ کر لیتا۔ نام دیو کو جڑی بوٹیوں کی بھی پہچان ہو گئی تھی اور وہ اپنے ہی باغ کی جری بوٹیوں سے بچوں کا علاج کرتا۔ اکثر اوقات دوسرے گاؤں والے بھی اسے بچوں کے علاج کےلیے بلا لیتے اور نام دیو خوشی سے چلا جاتا اور بچوں کا مفت علاج کرتا۔ کبھی کسی سے معاوضہ نہیں لیا۔
نام دیو خود بھی صاف ستھرا رہتا اور اپنے باغ کو بھی صاف ستھرا رکھتا۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے باغ نہیں بلکہ درستر خوان بچھانے کی جگہ ہے جہاں شاہی خاندان کھان تناول فرمانے والا ہے۔
باغ کے داروغہ عبدالرحیم چست اور کار گزار آدمی تھے۔ وہ اکثر اوقات دوسرے مالیوں کو ڈانٹ کر کام کرواتے۔ ذرا سی نرمی کی یا نظر انداز کیا تو مالی چھاؤں میں بیٹھ کر کش لگانے لگے۔ مگر نام دیو کی بات ہی کچھ اور تھی۔ نہ سستی نہ کاہلی۔ کام سے محبت اور ایمانداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ عبدالرحیم کو کبھی بام دیو سے شکایت نہ ہوئی۔ نام دیو نے کبھی تعریف کی خواہش نہ کی اور نہ معاوضہ کی فکر۔
ایک دفعہ مصنف نے نام دیو کے کام سے خوش ہو کر انعام دینا چاہا تو نام دیو نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بچوں کی پرورش پر کوئی انعام کا مستحق نہیں ہوتا۔ نام دیو کی اولاد نہیں تھی وہ پیڑ پودوں کوہی اپنی اولاد سمجھتا تھا۔
اعلیٰ حضرت حضور نظام نے اورنگ آباد میں باغ لگانے کا کام ڈاکٹر سید سراج الحسن (نواب سراج یار جنگ بہادر) ناظم تعلیمات کے ذمے کیا۔ مقبرہ رابعہ کا باغ فنِ تمیر کا عمدہ نمونہ تھا مگر مدت سے ویران اور سنسان پڑا تھا۔
سراج الحسن نام دیو کے بڑے قدر دان تھے اور اسے بھی اپنے ساتھ شاہی باغ میں لے آئے۔ اگرچہ نام دیو نے باغبانی کی تعیلیم حاصل کی تھی نہ کوئی سند یا ڈپلومہ تھا۔ مگر کام سچی لگن، محنت اور دھن ہی اس کی اصل جیت تھی۔
باغ میں بیسیوں مالی موجود تھے مگر نام دیو جیسا کوئی نہیں تھا۔ یہ کام میں اتنا مگن ہوتا کہ دنیا و مافیھا سے بے خبر ہو جاتا۔ ایک دن شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا سب مالی بھاگ گئے نام دیو کو پتا نہ چلا کہ اچانک مکھیوں نے حملہ کر دیا۔ انتا کاٹا کہ نام دیو بے سدھ ہو گیا اور کام کی دھن میں ہی دنیا سے چلا گیا۔ انسانوں، جانوروں اور پودوں کی خدمت کرنا ، مخلوق خدا کی اسی خدمت میں انسان کی عظمت ہے۔ ہر شخص میں قدرت نے کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے اس کو درجہ کمال تک پہنچانا ہی نیکی اور بڑائی ہے جو نام دیو میں پائی جاتی تھی۔
No comments:
Post a Comment