کلاس دہم اردو سبق- استنبول(خلاصہ)
حکیم محمد سعید استنبول ترکی ایک شہر ہے جس پر مسلمانوں نے 672ء میں پہلا حملہ کیا مگر سات سال کے مسلسل محاصرے پر بھی یہ حملہ کامیاب نہ ہو پایا اس دوران حضرت ابو ایوب انصاری کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد سلطان محمد فاتح پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس شہر پر حملہ ہوا اور جاتحانہ انداز میں اس شہر می داخل ہو کر آیا۔ صوفیہ میں نماز جمعہ ادا کی۔ مسلمانوں نے اس مسجد کی تعمیر میں اضافہ کیا۔ دیواروں اور چھتوں کی پچی کاری پر سرمئی قلعی کروادی گئی۔
قران پاک کی تلاوت کے لیے صدر دروازے کے پاس اندر کی جانب سنگ جراحت کی دو بڑی نالیاں اور چبوترے بنوائے۔ مسجد کی دیواروں پر مراد رابع نے خطاطی کروائی۔ محمود اول نے چھت کی وسعت کے علاوہ خوبصورت فوارہ ایک مدرسہ دارلمطالعہ اور دارالنعام بنوایا۔
استنبول میں تقریباً پانچ سو مساجد ہیں جن میں مسجد سلیمانیہ اسلامی جن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ استنبول کو مساجد کا شہر کہا جاتا ہے۔
جب استنبول میں تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی جس کا اہتمام ترکی کی یونیورسٹیوں کے سربراہ ڈاکٹر پروفیسر ڈوگوا باچی نے کیا تھا۔ مصنف کو اس وقت مسجد دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ تب مصنف نے اس وقت کے وزیرِ اعظم کے ہمراہ یہاں نماز ادا کی تھی۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد سلطان سلیمان نے 1550ء میں رکھا اور 1557ء کو یہ پایہ تکمیل تک پہنچی۔
اس مسجد کے ملحقہ کتب خانے میں مخطوطات کا بڑا ذخیرہ ہے۔ اندازاً یہاں ایک لاکھ سے زیادہ کتب محفوظ کی گئی ہیں۔ مصنف یہ سب دیکھنے کے بعد توپ کاپی محل چلے گئے۔ توپ کاپی ترکی کا نہایت اہم عجائب خانہ ہے۔ آثارِ قدیمہ کے علاوہ یہاں ایک فوجی عجائب خانہ بھی ہے۔ جسے اوقاف کہا جاتاہے۔ توپ کاپی میں اسلامی ترکی فنِ نقاشی اور مصوری کے بے انتہا قیمتی نمونے موجود ہیں۔ قرآن کریم کی آیات پر مبنی خطاطی کے عمدہ نمونے موجود ہیں۔ علاوہ ازیں رسول پاک ﷺ کی سوانح پر خط نسخ میں لکھا ایک مخطوطہ بھی توپ کاپی میں موجود ہے۔
اس کے بعد مصنف مسجد سلطان احمد گئے۔ ظہر کی نماز ادا کی۔ سلطان احمد سلطان محمد ثالث کا بیٹا تھا جو چودہ سال کی عمر تخت نشین ہوا تھا اور 28 سال کی عمر میں فوت ہو گیا تھا۔ اس کی بنوائی ہوئی یہ مسجد فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کے چھے مینار ہیں۔ اس شاندار مسجد کی زیارت کے بعد مصنف نے حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر حاضری دی۔ یہ وہ صحابی ہیں جن سے صحابہ کرام مسائل کی تحقیق میں رجوع کرتے تھے۔ حضورﷺ سے شدید محبت اور حق گوئی ان کی شخصیت کا نمایاں پن تھا۔ حجرت امیر معاویہ کے دور میں جب قسطنطنیہ پر حملہ ہو تو سفر جہاد میں خطرناک وبا پھیلی جس میں حضرت ابو ایوب انتقال کر گئے۔ ان کو صحابہ کرام نے استنبول کی فصیل کے نیچے دفن کر دیا۔
مصنف کے ان کے مقبرے کی زیارت کے بعد ادرنا جانے کے لیے اتاترک ہوائی میدان کا رخ کیا۔ مصنف خوش تھا کہ اس نے آٹھ گھنٹے میں اپنے دوتوں کو استنبول کی سیر کرا دی۔
No comments:
Post a Comment