لوک داستانوں کے مطالعے کی ضرورت ....؟ ڈیلی پاکستان ڈاٹ کام پر لکھے گئے ایک تبصرے کو آپ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
آپ ڈیلی پاکستان ڈاٹ کام پر بھی اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ قصے، کہانیاں یا داستانیں شروع سے ہی انسانی دلچسپی کا محور رہی ہیں کیونکہ داستانیں عقل کو نہ سہی تخیل کو ضرور اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔
یہ انسانی تخیل کا ہی نتیجہ ہیں اور تخیل ایسی قوت ہے جو عقل سے برتر ہے ۔ ایچ جی ویلز نے تخیلی کہانیاں پہلے لکھیں.
پہلے سائنس نے ان کی تکمیل بعد میں کی ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری داستانیں سائنس و ترقی کی پیش رو ثابت نہ ہو سکیں ۔
تاہم یہ بات کہنے میں عار نہیں کہ لوک داستانیں انسان کی ان خواہشوں کا نتیجہ ہیں جن کے بغیر انسانیت ترقی نہیں کر سکتی تھی۔
تاریخ انسانی کی اجتماعی فکر کی روایت کو لوک ادب ہی نے محفوظ رکھا۔
یہ سر مایہ ادب آج کی تیز رفتا زندگی میں نفسانفسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
مکمل تبصرہ پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
آپ ڈیلی پاکستان ڈاٹ کام پر بھی اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
قصے، کہانیاں یا داستانیں شروع سے ہی انسانی دلچسپی کا محور رہی ہیں کیونکہ داستانیں عقل کو نہ سہی تخیل کو ضرور اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔
یہ انسانی تخیل کا ہی نتیجہ ہیں اور تخیل ایسی قوت ہے جو عقل سے برتر ہے ۔ ایچ جی ویلز نے تخیلی کہانیاں پہلے لکھیں.
پہلے سائنس نے ان کی تکمیل بعد میں کی ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری داستانیں سائنس و ترقی کی پیش رو ثابت نہ ہو سکیں ۔
تاہم یہ بات کہنے میں عار نہیں کہ لوک داستانیں انسان کی ان خواہشوں کا نتیجہ ہیں جن کے بغیر انسانیت ترقی نہیں کر سکتی تھی۔
تاریخ انسانی کی اجتماعی فکر کی روایت کو لوک ادب ہی نے محفوظ رکھا۔
یہ سر مایہ ادب آج کی تیز رفتا زندگی میں نفسانفسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
مکمل تبصرہ پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
یہ انسانی تخیل کا ہی نتیجہ ہیں اور تخیل ایسی قوت ہے جو عقل سے برتر ہے ۔ ایچ جی ویلز نے تخیلی کہانیاں پہلے لکھیں.
پہلے سائنس نے ان کی تکمیل بعد میں کی ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری داستانیں سائنس و ترقی کی پیش رو ثابت نہ ہو سکیں ۔
تاہم یہ بات کہنے میں عار نہیں کہ لوک داستانیں انسان کی ان خواہشوں کا نتیجہ ہیں جن کے بغیر انسانیت ترقی نہیں کر سکتی تھی۔
تاریخ انسانی کی اجتماعی فکر کی روایت کو لوک ادب ہی نے محفوظ رکھا۔
یہ سر مایہ ادب آج کی تیز رفتا زندگی میں نفسانفسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
مکمل تبصرہ پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
لوک داستانوں پر فلم بینی کے حوالے سے دنیا ڈاٹ کام کی ایک تحریر پڑھیے۔۔۔۔۔۔۔۔
لوک داستانیں ابتداء سے ہی عوامی دلچسپی کی حامل رہی ہیں تاہم جب انہیںسلولائیڈ پرمنتقل کیا گیاتوان میںشائقین کی دلچسپی میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ وہ مقبول عام ہوگئیں۔لوک داستانیںہماری ثقافت اور ادب کا اہم حصہ ہیں جنہیں متعدد مصنفین اورصوفی شعرا ء نے اپنے الفاظ کے چمکدار موتیوں میں پرویا اور یہ داستانیں سلورسکرین کے افق پر کہکشاںبن کر جگمگائیں جن کی روشنی آج تک دھندلانہ پائی۔ اس لئے یہ برصغیرکے فلمسازوں کا پسندید ہ موضوع رہی ہیں۔ ان میں رنج والم، محبت اور اخلاقی اسباق سب موجود ہیں۔یہ ایسی داستانیں ہیںجوسینکڑوں برس گزر جانے کے باوجودابھی تک انتہائی دلچسپی سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔ برصغیر میں اس وقت لوک داستانوںکوفلمی شکل دی گئی جب ساکت فلموںکادورتھا۔فلم میکرزنے فلم کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے عوامی دلچسپی اورتفریح وطبع کے لئے ان میں بے شمارتبدیلیاں بھی کیں۔ برصغیر میں ’’ہیررانجھا‘‘’’لیلی مجنوں‘‘ ’’سسی پنوں‘‘ ’’سوھنی مہینوال‘ ‘’’مرزا صاحباں‘‘ ’’سہتی مراد‘‘ ’’شیریں فرہاد ‘‘’’پورن بھگت ‘‘’’گل بکائولی ‘‘’’وامق عذرا‘‘ ’’دلا بھٹی ‘‘’’انارکلی ‘‘اور’’تان سین ‘‘پرفلمیں بنائی گئیں مگر کچھ عرصہ سے پاک بھارت فلم انڈسٹری نے لوک داستانوں کے موضوعات کوفراموش کردیا ہے جبکہ میاںمحمدبخش ؒکی سیف الملوک پر آج تک کوئی فلم نہیں بنائی گئی ۔برصغیرمیں لوک داستان ’’ہیررانجھا‘‘پرپہلی بار فلم1928ء میں بنائی گئی اس وقت خاموش فلموںکادورتھا ۔فلم کی ہدایتکارہ فاطمہ بیگم تھیں اور ستاروں میں زبیدہ ،جانی بابواورشہزادی نے نمایاں کردار نبھائے۔ 1931ء میںجب فلموں کوآوازملی توہدایتکارجے پی ایڈوانی نے ’’ہیررانجھا‘‘ بنائی جس میں شانتاکماری ، ماسٹرفقیرحسین اورحیدرشاہ نے اپنی صلاحتوں کو اجاگر کیا۔1937ء میں ہدایتکاراے آرکاردارنے لاہور میں فلم ’’ہیررانجھابنائی ‘‘بنائی جس کے ہیرواداکارہ اور گلوکارہ سلمی آغاکے نانارفیق غزنوی تھے اورانوری ہیر کے کردارمیں جلوہ گرہوئیں ۔ان کے علاوہ ،لالہ یعقوب ، ایم اسماعیل اورگل حمید نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔اسی سال ہدایتکار کرشن دیومہرہ نے اس لوک داستان کو’’ہیرسیا ل ‘‘ کے نام سے فلمایا۔ اداکاروں میں بی این بالی، اقبال بیگم ،ایم اسماعیل ، شمشاد بیگم ، اے آرکشمیری ، نورجہاں کی بہن حیدر باندی اورعیدن شامل تھے ۔اس فلم میں انہوں نے خود بھی بے بی نورجہاں کے نام سے کام کیا تھا۔ 1955ء میں ہدایتکارنذیرنے اس لوک داستان کو ’’ہیر‘‘کے نام سے فلمایا جس میںسورن لتانے ہیر اورگلوکارعنایت حسین بھٹی نے رانجھے کا کردار نبھایا تھا۔دیگرفنکاروںمیں نذراورزینت نے بھی اہم کردار اداکئے ۔اس فلم کے نغمات نے ملک بھرمیں دھوم مچادی جن کی موسیقی صفدرحسین نے تخلیق کی تھی ۔ اس کے بعد ہدایتکارجعفربخاری نے ’’ہیرسیال ‘‘بنائی جس میں فر دوس اوراکمل مرکزی کردارو ںمیں جلوہ گر ہوئے ۔ان کے علاوہ ایم اسماعیل ،ناصرہ ،ممتاز،گل زماں اورآصف جاہ نے اپنے فن کامظاہرہ کیا۔ 1970ء میں ہدایتکارمسعودپرویزنے ’’ہیر رانجھا‘‘ بنائی جس میں فردوس ،اعجازاوراجمل نے اس قدر ڈوب کراداکاری کی کہ حقیقت کاگمان ہوتاہے۔ ان کی فطری اداکار ی نے شا ئقین کوبے حدمتاثرکیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فلم میں پنجاب کی ثقافت کوبھی اجاگرکیا گیا ۔اس فلم نے پورے برصغیرمیں دھوم مچا دی اوراس کی مقبولیت میں آج تک کمی نہیں آئی۔فلم کے دیگراہم فنکاروںمیں زمرد،رنگیلااورمنورظریف شامل تھے۔مقبول صحرائی لوک داستان لیلی مجنوں پربرصغیرپاک وہندمیں چھ فلمیں بنائی گئیں۔پہلی خاموش فلم ’’لیلی مجنوں‘‘ہدایتکارجے جے میڈن نے 1922ء میں بنائی جس میں وارنگ اورجے شیرون کومرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا گیا ۔دوسری خاموش فلم ’’لیلی مجنوں‘‘1927ء میں ہدایتکارکے راٹھورنے تخلیق کی ۔جس کے فنکاروںمیں رفیق غزنوی ،رام پیاری،حیدرشاہ اورحکم نمایاں تھے۔اسی سال ہدایتکارجے جے میڈن نے ایک بارپھر’’لیلی مجنوں ‘‘بنانے کاتجربہ کیا۔جس میں اداکارہ جہا ں آراء کجن اورماسٹرنثارنے مرکزی کرداراداکئے ۔ 1940ء میں بننے والی فلم ’’لیلی مجنوں‘‘کی ڈائریکشن ہدایتکار راج ہنس نے دی تھی جس میں پشپارانی ،وزیربیگم ، رنجیت کماری ،پی این بالی اورڈارکاشمیری نے اداکاری کی ۔1947ء میں ہدایتکارشریف نیرّ نے ہند پکچرز تلے ’’لیلی مجنوں‘‘بنائی جس میں سورن لتا،نذیر،ایم اسماعیل ،گوپ اورکے این سنگھ نمایا ںاداکارتھے۔فلم کی موسیقی نے دھوم مچادی جبکہ فلم بینوں نے سورن لتا اور ایم اسماعیل کی کردا رنگاری کوبہت پسند کیا۔ ہدایتکار انورکمال پاشا نے اسی لوک داستان کو 1957ء میں سلولائیڈ پرمنتقل کیا جس میں بہار اور اسلم پرویزنے اداکاری کے جوہردکھائے۔اس کے ساتھ ہی ہدایتکار منشی دل نے ’’عشق لیلی‘‘کے نام سے فلم بنائی جس میں صبیحہ اورسنتوش مرکزی کرداروںمیں جلوہ گر ہوئے اوریہ دونوں فلمیں ایک ہی روزنمائش کے لئے پیش کی گئیں۔ 1971ء میں ہدایتکارایس اے غفار نے ’’لیلی مجنوں‘‘ سندھی زبان میں بنائی جس میں مہ پارہ اور مشتاق چنگیزی نے مرکزی کردارانجام دئیے۔ 1973ء میں ہدایتکاراے ریاض نے ’’لیلی مجنوں ‘‘ بنائی جس کے مرکزی کرداروں میں دیبااوروحید مراد کو پیش کیاگیا۔ 1974ء میں ہدایتکارحسن طارق نے بھی ’ ’لیلی مجنوں ‘‘تخلیق کی جس میں وحید مراد،رانی کی کردار نگاری ایک عرصہ تک شائقین کی توجہ کامرکزبنی رہی۔لوک داستان سسی پنوں کو پہلی بارہدایتکارایچ ایم مہرہ نے 1928ء میں فلمبندکیا۔جس کے اداکاروں میں زیب النساء ،وٹھل اورخلیل نمایا ں تھے۔1932ء میں ہدایتکار این موجمعدار نے ’’سسی پنوں‘‘ بنائی جس میں سوشیلا،نندرام ،موجمعدار اور نور جہا ں نے اداکاری کی ۔1939ء میں’’سسی پنوں ‘‘ کو پنجابی زبان میں بنایاگیا۔جس کے ہدایتکاردائود چاندتھے۔فلم میںاقبال بیگم بالو،اسلم ،حیدرباندی ، عیدن ،نورجہاں،پشپارانی ،نظیر بیگم اورعبدالرحمن نے کردار نگاری کی ۔1946ء میں ہدایتکارجے پی ایڈوانی نے سسی پنوں بنائی جس میں گیتانظامی ،جے راج ،ببو،گوپ اور ای بلیموریا جلوہ گر ہوئے۔ 1954 ء میں ہدایتکاردائودچاندنے رومانوی داستان کو ’’سسی ‘‘دوبارہ عکسبند کیاجس میں صبیحہ ، سدھیر، آشا پوسلے ،سیلم رضااورغلام محمدنے ادکاری کے جوہر دکھائے ۔ 1968ء میں ہدایتکار ریاض احمدنے سسی پنو ں بنائی جس کے ستاروں میں نغمہ ،اقبال حسن ، عالیہ ، اور منور ظریف شامل تھے۔1972ء میں ہدایتکار مسعودپرویزنے ’’پنوں دی سسی ‘‘ کے نام سے فلم بنائی جس میں سنگیتااوراعجازنے مرکزی کردار نبھائے۔ 2004ء میں آغاحسن عسکری نے ’’سسی پنوں ‘‘ بنائی جس میں اداکارہ ثناء اورمعمررانانے مرکزی کردار نبھائے۔سوھنی مہینوال کو پہلی بار 1929ء میں کے بی بھادے نے فلمایاجس میں گوہر،نیلم جمشید جی اور ڈبلیوایم خان نے اداکاری کی ۔اسی سال ایچ مہتہ نے اس داستان کو فلمبندکیاجس میں زیب النساء اورماسٹروٹھل نے مر کزی کردار نبھائے ۔ 1933ء میں ہدایتکار ایچ مہتہ نے ایک بارپھرسوہنی مہینوال بنائی جس میں گوہر، امیربائی اورکرناٹکی کو کاسٹ کیا ۔ ہدایتکار روپ لال نے اس مقبول داستان کو 1937ء میںبنایاجس کے اداکارو ںمیں الماس ، ماسٹر بشیر اور ایم اسماعیل شامل تھے۔1946میں ہدایتکار ایشورلعل نے یہ فلم بنائی جس میں ایشورلال ، بیگم پارہ اورمبارک بی بی نے اپنے فن کامظاہرہ کیا ۔ 1955ء میں ہدایتکارایم جے رانا نے اس داستان کو ’’سوھنی ‘‘ کے نام سے تخلیق کیا ۔جس کے فنکاروں میں صبیحہ ، سدھیر،شمی اورنذرنے نمایاں کردار ادا کئے۔ ہدایتکار ولی نے اس رومانوی داستان کوسوہنی کمہارن کے نام سے سلورسکرین پرپیش کیا ۔جس میں بہار اور اسلم پرویز مرکزی کرداروں میں جلوہ گر ہوئے۔ 1976ء میں ہدایتکاررضامیر نے ’’سوہنی مہینوال ‘‘ بنائی جس میں ممتازاوریوسف خان نے مرکزی کردارانجام دئیے۔ لوک داستان مرزا صاحباں پہلی بار1929ء کوپردہ سکرین کی زینت بنی جس کی ڈائریکشن اے پی کپورنے دی تھی ۔ مرکزی کردارزیب النساء اور نندرام نے اداکئے ۔ ہدایتکار موجمعدارنے یہ عشق و محبت کی داستان 1933 ء میں تخلیق کی جس کے اداکاروں میں ببو، محبوب ، کملا اورکاشی ناتھ تھے ۔ ہدایتکارجی آرسیٹھی نے مرزاصاحباں 1935ء میں بنائی جس میں خورشید، بھائی دلیا، چھیلا اور امیر علی نمایاں اداکار تھے ۔ 1939میں ہدایتکارمدھوک نے اس لوک داستان کو ایکسپوزکیا جس میں ایلادیوی ،ظہوراجہ ، اے شاہ اور کلیانی جلوہ گرہوئے۔ 1947ء میں مرزا صاحباں کو کے امرناتھ نے فلمایا۔ جس میں نورجہاں ، ترکوک کپور، گلاب ،امیر بانو اور روپ کمل نمایا ں تھے ۔ ہدایتکارشریف نیرنے اردو زبان میں مرزاصاحباں بنائی جس میں مسرت نذیر، سدھیر، یاسمین اور علائوالدین نے مسحورکن اداکاری کی ۔ 1982میں ہدایتکارجہانگیرقیصرنے مرازجٹ کے نام سے اس داستان کوفلمبند کیاجس میںیوسف خان ،انجمن ،نازلی اورخالد سیلم موٹانے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔سہتی مراد کی داستان کوپہلی بار ہدایتکار برکت مہرہ نے 1941ء میں بنایا جس میںراگنی رام لال ،منورما اور رضیہ گل نمایاں فنکار تھے۔ 1957ء میں ہدایتکار ایم جے رانانے سہتی مراد کو سلولائیڈ پرمنتقل کیا۔اس کے فنکاروں میں مسرت نذیر ، اکمل ، نیلواورطالش شامل تھے ۔1968ء میں بننے والی اس رومانوی داستان میں اعجازاورفردوس مرکزی کرداروں میں جلوہ گرہوئے جس کی ہدایات مسعودپرویزنے دیں۔شریں فرہاد کوپہلی بار1926 ء میں ہدایتکار ہومی واڈیا نے بنایا جس میں اداکارہ گوہراورخلیل نے نمایا ں کرداراداکئے ۔ہدایتکارجے جے میڈن نے شریں فرہاد1931ء میں بنائی جس میں ماسٹر نثار اور کجن جلوہ گرہوئے ۔1945ء میں فلمساز دل سکھ ایم پنچولی نے اس لوک داستان پرفلم بنانے کاتجربہ کیا۔ 1946میں پرہلادت کی زیرہدایت بننے والی فلم شیریں فرہاد میں راگنی ،جنیت ،غلام محمداورنفیس نے اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ 1947ء میں اس داستان پر چاربارفلمیں بنائی گئیں جن میں دوبارخاموش فلمیں بنیں ۔ ہدایتکارشریف نیرنے 1975ء میں’’شیریں فرہاد‘‘ بنائی جس میں زیبا، محمد علی، طالش اورعلاؤالدین نمایاں تھے۔لوک داستا ن پورن بھگت پہلی بار1928ء میںہدایتکارپیسی کرنی نے بنائی جس میں جمشید جی ،ارملین اورجلوبائی نے مرکزی کردار ادا کئے ۔1933ء میںبننے والی اس داستان کے تخلیق کارڈاکٹردیوکی بوس تھے اور فنکاروں میں انوری ،کمار،کے سی دے نمایا ں تھے ۔ ہدایتکار روشن لال شوری نے اس داستان کو1939ء میں سلور سکرین کی زینت بنایا تھاجس میں انوری ،کرن دیوان ، حیدر باندی اوراے آرکپورنے کردارنگاری کی تھی۔گل بکاؤلی پہلی بار1924 ء میں بنائی گئی ۔جس کے ہدایتکارکے راٹھورتھے اورفنکاروں میںگلاب اور وشنو شامل تھے ۔ 1931ء میںاس داستان کو اے پی کپور نے فلمایا جس میں زیب النساء ، اشرف خان ، نجوبیگم اور پربھاتا نمایاں تھے۔ ہدایتکار برکت مہرہ نے گل بکاؤلی 1939ء میںبنائی جس کے مرکزی کرداروں میں ہیم لتا، ثریا جبیں ،سیلم رضااورایم اسماعیل شامل تھے۔ 1947ء میں مودی نے گل بکائو لی بنائی جس میں مرکزی کردار منیکا نے نبھایا ۔ 1961ء بننے والی فلم ’’گل بکاؤلی‘‘ کی ہدایات منشی دل نے دیں اور کاسٹ میں جمیلہ رزاق اور سدھیر شامل تھے۔ ہدایتکار رشید چودھری نے اس داستان کو 1970ء میں فلمایا جس میں نغمہ اورکیفی نمایاں تھے۔ وامق عذرا کو پہلی بار 1935ء میں فلمبند کیاگیا ۔ ترت بوس کی زیرہدایت بننے والی اس فلم کی کاسٹ میں اندرا،ترلوک کپور اور اے آرکابلی شامل تھے۔ 1947ء میں ہدایتکار نذیر نے بھی اس داستان کوپکچرائزکیا۔جس میںسورن لتا کے ساتھ وہ خود ہیرو کے روپ میں جلوہ گرہوئے ۔ 1962ء میں ہدایتکار منشی دل نے ’’عذرا‘‘کے نام سے فلم بنائی جس میں نیلو ، اعجاز،علائوالدین اورایم اسماعیل نے خوبصورت انداز میں کردارنگاری کی ۔ لوک داستان دلابھٹی 1940ء میں پہلی بارفلمبند کی گئی جس کے ہدایتکارادپ کمارشوری تھے جبکہ کنور، مجنوں،راگنی اورستیش نے اداکاری کی تھی ۔1956ء میں ہدایتکار ایس ایم ڈارنے اس فلم کوپنجابی میںبنایا ۔ جس میں سدھیر، صبیحہ ،ایم اسماعیل اورآشاپوسلے نمایاں فنکار تھے۔ مغلیہ دورکی لازوال داستان انارکلی کو پہلی بار ہدایتکار آر ایس چودھری نے 1928ء میں فلمایا۔ جس میں سلوچنا ڈی بلیموریا ،جلوبائی اورجمشید جی نے اداکاری کے جوہردکھائے۔اسی سال اس فلم کو ’’لوآف اے مغل پرنس ‘‘کے نام سے بھی بنایا گیا۔ پر فلارے کمارکی ڈائریکشن میں بننے والی فلم میں سیتا دیوی اور سوان سنگھ نے مرکزی کردار نبھائے۔ 1935ء میں اس ر ومانوی داستان کو’’انارکلی ‘‘ کے نام سے دہرایا گیا ۔جس کی ہدایتکاری آرایس چودھری نے کی ۔فنکاروں میں سلوچنااورڈی بلموریا نمایاں تھے۔1952ء کوایک بارپھراس داستان کو انار کلی کے نا م سے بنایا گیا جس کے ہدایتکارزنندلال جسونت لال تھے۔فلم میں بینارائے اورپردیپ کمار نے شاندار اداکاری کی ۔1958ء میں ہدایتکار انور کمال پاشانے نورجہاں اورسدھیرکولے کراس داستان پرفلم بنائی جس کے گیتوں نے برصغیرمیں حشر بر پا کر دیا ۔1960ء میں ہدایتکارکے آصف نے اس داستان کومغل اعظم کے نام سے فلمایا جس میں دلیپ کمار،مدھوبالا اورپرتھوی راجکپورنے اپنی دلکش اداکاری کے ذریعے کرداروں میں حقیت کارنگ بھردیا ۔سرو ں کی دنیا سے تعلق رکھنے والی داستان تان سین پہلی بار1943ء میں بنائی گئی جس میں خورشید بانونے تانی اورسہگل نے تان سین کالافانی کردار ادا کیا۔1972 ء میں اس داستان کو ہدایتکار ایس اے حافظ نے فلمبند کیاجس میں تان سین کاکردارمصطفے قریشی نے نبھایا۔ان کے علاوہ زیبا،محمدعلی ،آغاطالش اورلہری نے بھی خوبصورت اداکاری کامظاہرہ کیا۔ ٭…٭…٭
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-12-03/7196#.Vzm4op6d61s
ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے پر شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔
No comments:
Post a Comment