شفیع عقیل
شہر کو چھوڑے برسوں بیتے جھولی میں کوئی آس نہیں -شہر کو چھوڑے برسوں بیتے جھولی میں کوئی آس نہیں
ان گلیوں میں پہنچ نہ پائیں ایسا بھی بن باس نہیں
جب سے پیار کی مالا پہنی جب سے پیار میں جوگ لیا
جس دھرتی نے گود میں پالا وہ دھرتی بھی راس نہیں
چاند اتر کر بام پے آیا پلکون پر یہ رات ڈھلی
دل کی بات بتائیں کس کو کوئی لٹیرا پاس نہیں
رنگ نیارا روپ پیارا پھول کھلے ہیں کیاری میں
سوچ سمجھ کر ہار بنانا ان پھولوں میں باس نہیں
گیان کا ساغر ،سوچ کی لہریں جیون بھر کا روگ نہیں
اس پر دنیا پاگل سمجھے دکھ سکھ کا احساس نہیں
دھن دولت کی آگ میں دیکھو تن من دونوں راکھ ہوئے
لوبھ کی ماری دنیا یارو کوئی یہاں اب داس نہیں
بستی چھوڑی لوگ بھی چھوٹے چھوڑ دئیے وہ رستے بھی
آس نراس سبھی کچھ چھوڑا چاہت کی اب پیاس نہیں
نہ وہ پیار کی دھوپ روپہلی نہ وہ یاد کے پھول کھلے
پاؤں نیچے دھرتی بدلی سر پر کوئی آکاش نہیں
No comments:
Post a Comment