کتب بینی
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بڑھ کر کتابوں کا مطالعہ سب کی نہیں تاہم سنجیدہ ذہن پڑھے لکھے فرد کی خواہش ضرور ہوتی ہے جس پر وہ گاہے گاہے عمل کی کوشش بھی ضرور کرتا ہے۔ مطالعے کا شوق نہ صرف ذہنی تناﺅ کوختم کرنے کا بہتری ذریعہ ہے بلکہ مثبت سوچ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے مطالعہ کا شوق لوگوں سے دوستی کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے سابقہ پڑتا ہے اور یہی کتابیں ہمیں زندگی کے نشیب و فراز، طرز، بودوباش، رہن سہن کے آدابِ زندگی، بلند پایہ مصنفین کے خیالات اور حکیمانہ باتیں ہم تک پہنچاتی ہیں۔ کتابیں تا دمِ حیات زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین رفیق، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔ کتابوں سے دوستی کے چند گنے چنے فوائد ہی نہیں بلکہکتب بینی کے فوائد اتنے کثیر ہیں کہ ہم ان کا شمار انگلیوں پر نہیں کرسکتے۔ کتابیں ہماری رفیق تنہائی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور مسائلِ حیات پر ان افکار کا جو ذخیرہ ملتا ہے ان سے مستفید ہوکر ہم بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔ کتب بینی ۔۔۔ ایک نہایت مفید مشغلہ ہے ۔ یہ علم میں اضافے اور پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نہایت موثر نسخہ ہے ۔ صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف ’الجاحظ‘ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا : کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا ۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ مطالعہ کتب سے نہ صرف، ہماری ذہنی نشونما ہوتی ہے بلکہ پریشانی کے عالم میں یہ ہماری دلچسپی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ایک اچھی کتاب بہترین غذا بھی ہوتی ہے۔ کتابوں میں جو علوم کا خزانہ موجود ہوتا ہے وہ لازوال ہے۔ گردشِ روز گار پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوتا یہ اپنے طلب گاروں اور شیدائیوں کی تشنگی دور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت ہر انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ کسی سے بے وفائی نہیں کرتی۔ دولت ِ دنیا چھن سکتی ہے مگر کتب بینی سے حاصل کیا ہوا علم چرایا نہیں جاسکتا۔ جب آپ پڑھتے ہوئے کتاب کے ورق پر ورق الٹتے جائیں گے تو آپ کی ذہانت بڑھتی رہے گی اور کئی مفید باتیں آپ کے ذہن میں اپنے لیے جگہ بناتی رہیں گی ۔ سوانحِ حیات پر لکھی ہوئی کتابوں سے آپ کو عام لوگوں کی پسند کی باتیں بھی معلوم ہوتی رہیں گی اور بادشاہوں کے طور طریقوں کا بھی پتا چلتا رہے گا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات آپ ایک ماہ کی کتب بینی سے اتنا کچھ سیکھ جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کی زبانی صدی بھر میں سنی ہوئی باتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ کتب بینی سے انسان کے اخلاق و کردار پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ کتابیں انسانوں کو برائی کی ترغیب بھی دے سکتی ہیں۔ اس لئے مطالعہ کتب کےلئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کتابیں چنتے وقت احتیاط کرنی چاہئے کہ ان کا موضوع تعمیری رحجانات کا حامل ہو۔ منحرف اخلاق اور فحش قسم کی کتابیں ہماری بدترین دشمن تو بن سکتی ہیں دوست نہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں تو ہماری مراد ان کتابوں سے ہے جس سے ہمارے کردار کی تعمیر میں مدد ملے۔ ہماری قومی اور ملی زندگی میں صحت مند رحجانات کو فروغ حاصل ہو۔ ہماری فلاح و بہبود اور ترقی و عروج کی راہیں ہموار ہوں۔ دل میں وطن اور اہلِ وطن کی محبت کا جذبہ ابھرے اور عالمگیرانسانیت، اخوت اور بھائی چارگی کا احساس پیدا ہو، عظمت آدم کی سربلندی حاصل ہو۔ پڑھنے کے بیشمار فائدے ہیں ۔ لیکن نقصان ذرا بھی نہیں ہوتا ۔ آپ کو کسی استاد کے دروازے پر انتظار کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑتی جو آپ کی فیس کا منتظر رہتا ہے ۔ اور ایسے شخص سے بھی نہیں سیکھنا پڑتا جو جانتا تو بہت کچھ ہے مگر اس کی عادات و اطوار بڑے ناپسندیدہ ہوتے ہیں ۔ کتاب رات کو بھی آپ کا حکم اسی طرح مانتی ہے جیسے دن کو ، خواہ آپ سفر میں ہوں یا گھر میں بیٹھے ہوں ۔ سفر کے دوران میں ہونے والی اکتاہٹ سے نجات کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی چیز کارآمد نہیں ہوتی ۔ کتاب ایک ایسے استاد کی مانند ہے کہ آپ کو جب بھی ضرورت پڑے ، آپ اسے اپنے پاس پائیں گے ۔ یہ ایسا ’استاد‘ ہے کہ آپ خواہ اسے کچھ نہ دیں ، یہ آپ کو دیتا رہے گا ۔ اس کے پاس جتنا کچھ ہے ، یہ سب کھول کر آپ کے سامنے رکھ دے گا ۔ اگر آپ اس سے لاپروائی کریں تب بھی یہ آپ کی فرمانبرداری کرتا رہے گا ۔ سب لوگ آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائیں تو بھی یہ بدستور آپ کے دوش بدوش کھڑا رہے گا ۔ کتابیں پڑھنے کے فوائد پڑھنے سے فصاحت و بلاغت کی صفت پیدا ہو جاتی ہے ۔ پڑھنے سے ذہن کھلتا ہے اور خیالات میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے ۔ پڑھنے سے علم میں اضافہ ، یادداشت میں وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے ۔ پڑھنے سے غم اور بےچینی دور ہو جاتی ہے ۔ پڑھنے کے دوران میں انسان جھوٹ بولنے اور فریب کرنے سے بچا رہتا ہے ۔ پڑھنے والا دوسروں کے تجربات سے مستفید ہوتا ہے اور بلند پایہ مصنفین کا ذہنی طور پر ہمسفر بن جاتا ہے ۔ پڑھنے والا اوقات کے ضیاع سے محفوظ رہتا ہے ۔ پڑھنے کی عادت کی وجہ سے انسان کتاب میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ سستی اور کاہلی سے مغلوب نہیں ہونے پاتا ۔ کتابوں کا مطالعہ سب کی نہیں تاہم سنجیدہ ذہن پڑھے لکھے فرد کی خواہش ضرور ہوتی ہے جس پر وہ گاہے گاہے عمل کی کوشش بھی ضرور کرتا ہے۔ مطالعے کا شوق نہ صرف ذہنی تناﺅ کوختم کرنے کا بہتری ذریعہ ہے بلکہ مثبت سوچ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، مطالعہ کا شوق لوگوں سے دوستی کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے یہ ایک آزمودہ مقولہ ہے جس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی انسان کو کتابوں سے سابقہ پڑتا ہے اور یہی کتابیں ہمیں زندگی کے نشیب و فراز، طرز، بودوباش، رہن سہن کے آدابِ زندگی، بلند پایہ مصنفین کے خیالات اور حکیمانہ باتیں ہم تک پہنچاتی ہیں۔ کتابیں تا دمِ حیات زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین رفیق، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔ کتابوں سے دوستی کے چند گنے چنے فوائد ہی نہیں بلکہکتب بینی کے فوائد اتنے کثیر ہیں کہ ہم ان کا شمار انگلیوں پر نہیں کرسکتے۔ کتابیں ہماری رفیق تنہائی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور مسائلِ حیات پر ان افکار کا جو ذخیرہ ملتا ہے ان سے مستفید ہوکر ہم بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔ کتب بینی ۔۔۔ ایک نہایت مفید مشغلہ ہے ۔ یہ علم میں اضافے اور پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نہایت موثر نسخہ ہے ۔ صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف ’الجاحظ‘ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا : کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا ۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ جب آپ پڑھتے ہوئے کتاب کے ورق پر ورق الٹتے جائیں گے تو آپ کی ذہانت بڑھتی رہے گی اور کئی مفید باتیں آپ کے ذہن میں اپنے لیے جگہ بناتی رہیں گی ۔ سوانحِ حیات پر لکھی ہوئی کتابوں سے آپ کو عام لوگوں کی پسند کی باتیں بھی معلوم ہوتی رہیں گی اور بادشاہوں کے طور طریقوں کا بھی پتا چلتا رہے گا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات آپ ایک ماہ کی کتب بینی سے اتنا کچھ سیکھ جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کی زبانی صدی بھر میں سنی ہوئی باتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ کتب بینی سے انسان کے اخلاق و پڑھنے کے بیشمار فائدے ہیں ۔ لیکن نقصان ذرا بھی نہیں ہوتا ۔ آپ کو کسی استاد کے دروازے پر انتظار کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑتی جو آپ کی فیس کا منتظر رہتا ہے ۔ اور ایسے شخص سے بھی نہیں سیکھنا پڑتا جو جانتا تو بہت کچھ ہے مگر اس کی عادات و اطوار بڑے ناپسندیدہ ہوتے ہیں ۔ کتاب رات کو بھی آپ کا حکم اسی طرح مانتی ہے جیسے دن کو ، خواہ آپ سفر میں ہوں یا گھر میں بیٹھے ہوں ۔ سفر کے دوران میں ہونے والی اکتاہٹ سے نجات کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی چیز کارآمد نہیں ہوتی ۔ کتاب ایک ایسے استاد کی مانند ہے کہ آپ کو جب بھی ضرورت پڑے ، آپ اسے اپنے پاس پائیں گے ۔ یہ ایسا ’استاد‘ ہے کہ آپ خواہ اسے کچھ نہ دیں ، یہ آپ کو دیتا رہے گا ۔ اس کے پاس جتنا کچھ ہے ، یہ سب کھول کر آپ کے سامنے رکھ دے گا ۔ اگر آپ اس سے لاپروائی کریں تب بھی یہ آپ کی فرمانبرداری کرتا رہے گا ۔ سب لوگ آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائیں تو بھی یہ بدستور آپ کے دوش بدوش کھڑا رہے گا ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Need in points.
ReplyDelete