اب میں خوش ہوں
بہت پرانے زمانے کی بات ہے جب فلسطینی باشندے اپنی سرزمین میں امن و سکون سے رہا کرتے تھے۔ شہر خلیل میں ایک غریب خیاط (درزی) عمر رہا کرتا تھا۔ عمر بہت تنگ دستی کے دن گزار رہا تھا۔ پھر بھی وہ اپنی قسمت سے شاکی نہیں تھا۔ اس کی جھونپڑی بہت پرانی اور خستہ ہوچکی تھی۔ مسلسل تنگ دستی اور غربت نے اس کے مزاج پر برا اثر ڈالا اور وہ چڑچڑا ہوگیا۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ اس طرح بھڑک اٹھتا، جیسے کوئی شخص بارود کے ڈھیر میں دیا سلائی لگادے۔ عمر کی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا۔ جھونپڑی میں وہ خود، اس کی بیٹی عارفہ اور نواسیاں مل جل کر رہتے تھے۔ کبھی کبھی عمر کو اپنی ننھی منی نواسیوں کا شور بھی ناگوار گزرتا اور نواسیوں کو غصے کے عالم میں برا بھلا کہہ ڈالتا۔ تب اس کی معصوم اور بھولی بھالی نواسیاں بری طرح سہم کر خاموشی ہوجایا کرتیں ان کے مسکراتے چہرے سنجیدہ ہوجاتے۔
ایک دن کی بات ہے، بچے حسب معمول ناشتے سے فارغ ہو کر کھیل رہے تھے،
ایک دن کی بات ہے، بچے حسب معمول ناشتے سے فارغ ہو کر کھیل رہے تھے،
مکمل کہانی پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔
اس کہانی کو تصوری شکل میں اپنے کمپیوٹر یا موبائل میں محفوظ کرنے کےلیے یہاں کلک کریں۔
اس کہانی کو تصوری شکل میں اپنے کمپیوٹر یا موبائل میں محفوظ کرنے کےلیے یہاں کلک کریں۔
ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے پر شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔
No comments:
Post a Comment