جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

طلباء کی سہولت کےلیے شفیع عقیل کے بارے معلومات اردو محفل کی تحریر ہے۔

روزنامہ جنگ کے سنڈے ایڈیشن میں ایک طویل عرصے سے جناب شفیع عقیل، کہ ش ع کے نام سے جانے جاتے ہیں، کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ تبصرہ، کتابوں کے تعارف تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ کبھی کبھی یہ طول بھی پکڑتا ہے، حال ہی میں راقم الحروف کی جناب ابن صفی پر مرتب کردہ کتاب پر یہ تبصرہ دو کالموں تک پھیل گیا اور شفیع صاحب نے اس زمانے کو یاد کیا جب وہ صدر کراچی کے کسی ریستوران میں بیٹھے ہوتے تھے اور باہر ایک غلغلہ بلند ہوتا تھا اور معلوم کرنے پر پتہ چلتا تھا کہ ابن صفی کا تازہ ناول شائع ہوگیا ہے اور اس کے حصول کے لیے طلبگاروں کی صدائیں، دہائیوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ لیکن خیر ہمارا شمار تو ہما شما میں ہوتا ہے، یہاں بڑے بڑے جید لوگوں کو دیکھا کہ شفیع عقیل ان کی کتاب پر تبصرہ نہ کریں تو مصیبت اور کردیں تو اور زیادہ مصیبت۔۔۔۔۔۔ع۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا 
خود راقم کی متذکرہ کتاب کے عنوان (کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا) کو شفیع صاحب نے چیلنج کردیا تھا کہ یہ درست نہیں ہے، ہم نے تو خیر سر نہیوڑا کر ان کی بات مان لی اور فون پر بھی معذرت کی کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی اور ہم اگلی کتاب کا عنوان "سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا" رکھ دیں گے۔

بعض احباب کی رائے میں شفیع عقیل صاحب کا جنگ میں کیا گیا یہ تعارف یا تبصرہ ایک پوسٹ مارٹم کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ گزشہ دنوں ہمارے ہمدم دیرینہ ایک صاحب ہم سے کہہ رہے تھے کہ بھائی! پچھلے 2 برسوں سے ش ع کے تبصرے دیکھ رہا ہوں، ہمیشہ ایک دبا دبا سا طنز ان کی تحریر میں ہلکورے لے رہا ہوتا ہے۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔

کل رات مدیر بیلاگ اور ہمارے بزرگ جناب عزیز جبران انصاری صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے آپ نے آج کے جنگ میں میری کتاب "بذلہ سنجان کراچی" پر شفیع عقیل کا تبصرہ دیکھا ? ہمارے کان کھڑے ہوئے، عرض کیا حضرت! دیکھا تو نہیں ہے لیکن ان کےتبصرے عموما ظالمانہ سے ہوتے ہیں وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر صاحب نے کہا کہ نہیں، یہ کچھ اس کے سوا ہے۔ آپ پہلے اسے دیکھیے، میں ایک جواب بھیج رہا ہوں جسے آپ سماجی رابطوں کی ان ان "ادبی بیٹھکوں" پر آویزاں کردیجیے جہاں آپ ہمہ وقت، جابجا اور جا بیجا موجود رہتے ہیں۔ عرض کیا کہ جناب والا! آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔ 
ادھر گفتگو سے فارغ ہوکر جب راقم نے جنگ میں بذلہ سنجان کراچی پر تبصرہ دیکھا تو سچ مچ چکرا کر رہ گیا۔ اس قدر تند و تیز کہ کیا کہیے۔ ایک جگہ تو جناب شفیع عقیل نے ہمیں ایسا بدحواس کیا کہ مت پوچھیے۔۔۔۔۔۔ لکھتے ہیں:

" قطع نظر دوسرے شہروں کے، کراچی میں تو یہی حال ہے۔ یہاں طنز و مزاح نگاری کی جو گت بنی ہے اور بن رہی ہے، اس کا حساب اب اللہ ہی لے گا۔""
یہاں موجود طنز و مزاح نگاروں کو شنید ہو کہ اللہ میاں اب آپ سے احکامات دین کی بجاآوری کے ساتھ ساتھ مزاح نگار ہونے کا بھی حساب لیں گے۔ یہ چونکہ حقوق العباد میں آتا ہے لہذا اس کا قوی گمان ہے کہ اللہ تعالی اپنی عبادات میں کم بیشی معاف کردے لیکن حقوق العباد میں آنے والے معاملات کو جب تک آپ کے قارئین بشمول جناب شفیع عقیل معاف نہیں کریں گے، گلو خلاصی کی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ یہاں موجود ہمارے کسی دوست نے کہیں غلطی سے شفیع عقیل صاحب کو اپنی مزاح نگاری پر مبنی کتاب تبصرے کے لیے تو نہیں بھیجی
حال ہی میں ہمارے ایک مہربان دوست کی مزاح نگاری پر مبنی کتاب کی کراچی کے شیرٹن ہوٹل میں تقریب رونمائی تھی، خاکسار کو یہ کہہ کر مدعو کیا گیا تھا کہ "اگر وہ نہ آیا تو یہ تقریب نہ ہوسکے گی"۔ اب سوچ کر خوف سا آرہا ہے کہ خدانخواستہ وہاں کسی صورت شفیع عقیل صاحب موجود ہوتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔ 

No comments:

Post a Comment