لالچ اور حرص، Lalach aur hiras,

لالچ  اور حرص
لالچ اور حرص  کے درخت  جب  بھی پھلے   پچھتاوے کے پھل پیدا کیے۔
ایک ایسے آدمی کی کہانی جسے بادشاہ کے خوش ہو کر انعام کے طور پر زمین الاٹ کر دی،
زمین بھی اس قدر جتنی وہ گھیر سکتا ہے، مگر لالچ اور حرص نے  اُسےقبر کی دو گز زمین میں دفن کردیا ۔
جس کے کتبے پر  لکھا گیا..........

"اس شخص کی ضرورت بس اتنی جگہ کی تھی جتنی جگہ اس کی قبر ہے"


مکمل کہانی پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔

ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے میں شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔

لالچ کی سزا، lalach ki saza

لالچ کی سزا
چیزوں کو جمع کرنا  قدرتی  عادت بھی ہے اور شوق بھی پا ل لیا جاتا ہے۔
مگر یہ عادت اور شوق اسی وقت تک مفید رہتا ہے جب تک اس میں لالچ اور حرص کا پہلو نہ آئے۔

آج کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جس کا شوق سکے جمع کرنا تھا، بہت سے سکے جمع کیے ، جو پانی میں بہہ گئے۔
 اتفاق سے کھوئے ہوئے پھر سے ملے مگر لالچ  میں آ کر وہ ہمیشہ سے ان سکوں سے محروم ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مکمل کہانی پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔


ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے میں شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔

lalach buri bala he, لالچ بری بلا ہے، لالچی کتا، lalchi kuta





لالچ بری بلا ہے
بچپن سے ایک کہانی سنتے آ رہے ہیں کہ ایک لالچی کتا قصاب کی دکان سے ہڈی لے کر بھاگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختلف گریڈز کے طلباء کے لیے مختلف درجے کے الفاظ کے ساتھ یہ کہانی تقریبا ہر درجے کے طلباء کے نصاب کے حصہ ہے۔
یہاں آپ کو مڈل اور اس سے اوپر کے درجے کے طلباء کےلیے یہ کہانی پڑھنے کو ملے گی۔ 

مکمل کہانی پڑھنے اور اس کہانی کو اپنے کمپیوٹر یا موبائل میں محفوظ کرنے کےلیے یہاں کلک کریں۔ 


ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے میں شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔

imtehan ki tayari pr mukalima






مڈل اور میٹرک کے طلباء کے نصاب میں مکالمہ نویسی اردو     قواعد و انشاء کا اہم حصہ ہے۔
آپ مختلف موضوعات پر    مکالمے یہاں  پڑھ سکتے ہیں۔
امتحان کی تیاری پر استاد اور طلباء کے درمیان مکالمہ پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔ 
اگر  اس لنک پر کسی پریشانی کا  سامنا ہو تو نیچے دی گئی تصاویر میں کسی ایک پر کلک کریں۔ 





یہ مکالمہ تصویری شکل میں اپنے موبائل یا کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کےلیے اس لنک پر کلک کریں۔ 

تصویری لنک 

ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے میں شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔


 امتحان کی تیاری پر  دو طلباء کے درمیان مکمل مکالمہ پڑھنے کےلیے  یہاں کلک کریں۔  

اگر  اس لنک پر کسی پریشانی کا  سامنا ہو تو نیچے دی گئی تصاویر میں کسی ایک پر کلک کریں۔ 





یہ مکالمہ تصویری شکل میں اپنے موبائل یا کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کےلیے اس لنک پر کلک کریں۔ 

تصویری لنک 

ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے میں شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔


Shafi Aqeel ke Mutaaliq, شفیع عقیل کے بارے میں

شفیع عقیل (شین –عین)
شفیع عقیل کے متعلق یہ تحریر ہماری ویب ڈاٹ  کام سے ملی آپ  کی معلومات میں اضافہ کےلیے یہاں پیش کی جارہی ہے۔ 
شفیع عقیل(شین۔عین) بھی رخصت ہوئے۔۲۰۱۳ء میں ہمارے کئی ادیب و شاعر ہم سے جدا ہوگئے ، ابھی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو دنیا سے رخصت ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ آج ۷ ستمبر کو یہ خبر بھی پڑھی کے ش ۔ع بھی چلے گئے۔ شفیع عقیل بلا شبہ اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان کے ادیب اور لوک داستانوں کو قلم کی زبان دینے کے ماہر تھے۔عرصہ دراز سے روزنامہ جنگ میں کتابوں پر تبصرے کر رہے تھے۔ اس فن میں مہارت حاصل ہوگئی تھی اور اس حوالے سے بلند مقام پر فائز تھے ۔ان کا خاندانی نام محمد شفیع اور ادبی نام شفیع عقیل لیکن عرصہ ہوا انہوں نے شین عین کو ہی اپنی پہچان بنا لیا تھا۔۱۹۳۰ء میں لاہور چھاونی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں ’’تھینہ‘‘ میں پیدا ہوئے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اب یہ گاؤں موجود نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ابتدائی دور لاہور کے علاقے دھرم پورا جس کا نیا نام مصفطیٰ آباد ہے میں گزارا۔ ۱۹۵۰ ء میں لاہور سے کراچی تشریف لے آئے۔ان کی تعلیم روایتی تھی ادیب عالم اور پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۴۹ء میں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا ہوا تھا۔ کراچی میں رہتے ہوئے ان کے پاس یقینا موقع تھے کہ وہ اپنی تعلیم کو آگے بڑھا تے لیکن نہیں معلوم کیا مجبوریاں اور رکاوٹیں تھیں۔ ان کی تحریر کی پختگی اور رچاؤ ایک منجھے ہوئے مصنف کا پتا دیتی ہیں۔

شفیع عقیل مستقل مزاج انسان تھے کراچی آئے تو کراچی کے ہی ہو رہے، صحافت کا پیشہ اختیار کیا تو صحافی کے حیثیت سے ہی دنیا سے رخصت ہوئے ، روزنامہ جنگ سے
۱۹۵۰ء میں وابستہ ہوئے تو اپنی زندگی کے ۶۴ سال اسی ادارے میں گزار دئے اور اسی ادارے سے منسلک رہتے ہوئے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ادارہ جنگ کے تحت ہی اخبار ِ جہاں کے لیے بھی کام کیا۔ جنگ کے میگزین کی ادارت بھی کی۔ بھائی جان کے لقب سے معروف ہوئے۔ رسالہ ’بھائی جان‘ ، ہفت روزہ ’’ماحول‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ مجید لاہوری مرحوم کے ساتھ پندرہ روزہ ’’نمکدان‘‘ کے نائب مدیر بھی رہے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مجید لاہوری اور شوکت تھانوی کے ساتھ ہی کیا تھا۔ مجید لاہور پر دو کتابیں ’مجید لاہوری فن اور شخصیت ‘ اور مجید’لاہوری کی حرف و حکایت، ۱۹۷۱ء‘ میں مرتب کی، شوکت تھانوی پر ان کا ایک مضمون ’’ظرافت نگاری کی شان: شوکت تھانوی‘‘ شائع ہوا۔و ہ آ رٹ کے نقاد کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔

شفیع عقیل کو ان کی ادبی و تصنیفی خدمات پر اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
۱۹۶۸ء میں انہیں پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ سے نوازا گیا، ۱۹۷۶ء میں حبیب ادبی ایوارڈ، ۱۹۷۸ء مین بک کونسل ادبی ایوارڈ، ۱۹۹۰ء میں خوش حال خان خٹک ایوارڈ اور سر عبدالقادر ایوارڈ ملا، ۱۹۹۵ء میں خدمت صحافت ایوارڈ، ۲۰۰۴ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسنں کارکردگی دیا گیا، ۲۰۰۵ء میں لائف ٹائم اچیو منٹ ایوراڈاور لائف فیلو ورلڈ پنجاب کانفرنس، ۲۰۰۹ء میں کراچی پریس کلب کا نشان سپاس دیا گیا اسی سال لائف فیلو’ اکادمی ادبیات پاکستان ] اور کتاب ’پنجاب رنگ‘ پر داؤد ادبی انعام سے بھی انہیں نواز گیا۔

شفیع عقیل مرحوم لوک کہانیوں، لوک داستانوں اور پنجاب کی لوک کہانیوں کے حوالے سے بلند مقام رکھتے تھے۔انہوں نے مختلف زبانوں کے ادب خاص طور پر پنجابی ادب کو اردو میں ترجمہ کر کے اردو پڑھنے والوں کو پنجابی ادب سے خوب خوب متعارف کرایا، ان کی یہ ادبی خدمت تادیر یاد رکھی جائے گی۔ اس حوالے سے انہوں نے متعدد کتابیں تحریر کیں۔ ان میں پنجابی لوک کہانیاں (
۱۹۶۳ء)، پنجاب لوک داستانیں (۱۹۷۵ء)، پنجاب رنگ (۱۹۶۸ء)، جاپان لوک کہانیاں، ایرانی لوک کہانیاں، چینی لوک کہانیاں ۱۹۷۵ء، جرمن لوک کہانیاں، جرمن لوک داستانیں، جاپانی لوک حکائتیں، دوستی کا پھل (لوک کہانی)، سوچاں دی زنجیر (۱۹۷۵ء)، سسی پنوں (۲۰۰۲ء) شامل ہیں ۔

شفیع عقیل کی تصانیف کی کل تعداد
۳۷ ہے ۔ ان کی اولین کتاب ۱۹۵۲ء میں ’بھوکے (افسانے)کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ گویا انہوں نے تصانیف کی ابتدا افسانوں سے کی۔ اس اس کے بعد اردو اور پنجابی میں تصانیف و تالیفات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان کی تصانیف میں ’ایک آنسو ایک تبسم ‘(طنز و مزاح) ۱۹۵۳ء، ’ڈھل گئی رات (ناول) ۱۹۵۷ء، ‘،’مجید لاہوری فن اور شخصیت‘ ۱۹۵۸ء، تیغ ستم (طنز و مراح) ۱۹۶۳ء، ہماری منزل غازی یا شہید (رپوتاژ) ۱۹۶۸ء، ’پنجاب رنگ ۱۹۶۸ء‘، ’غالب جنھوں ہر کوئی چنگا آگھے (پنجابی ترجمہ) ۱۹۶۹ء، ’ ’پنجاب کے پانچ قدیم شاعر ۱۹۷۰ء، ’’ مجید لاہوری کی حرف و حکایت ۱۹۷۳ء، سیر و سفر ۱۹۸۰ء، ’ زہر پیالہ‘ (۱۹۸۰ء)،سیف الملوک ۱۹۹۰ء،’ تنقید و آگہی ‘(۱۹۹۵ء)، قائد اعظم محمد علی جناح تقریریں تے بیان ۱۹۹۷ء ’نامور ادیبوں اور شاعروں کا بچپن ‘(۱۹۹۸ء)،نامور ادیبوں کی نایاب کہانیاں اور درامے ۱۹۹۸ء، ’نا مور شاعروں کی نایاب منظومات ‘ (۱۹۹۹ء)،نا’مور ادیبوں اور شاعروں کے نایاب مضامین ‘ (۲۰۰۲ء)ادیب اور ادبی مکالمے ۲۰۰۲ء، دو مصور بشیر مرزا اور آزر زوبی ۲۰۰۳ء، مشہور اہل قلم کی گمنام تحریریں ۲۰۰۴ء، پیرس تو پھر پیرس ہے۲۰۰۴ء، سلطان بانوں ‘(۲۰۰۴ء)، سلطان باہو : حیات و فن ۲۰۰۴ء، زندگی پھر کہاں چھ مما لک کا سفر نامہ ۲۰۰۹ء، سرخ سفید سیاہ ‘(۲۰۰۹ء)، سفرنامہ مغربی جرمنی ‘چار جدید مصور، تصویر اور مصور، مصور اور مصور شامل ہیں۔شفیع عقیل کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ان کی کتاب ’’پنجابی لوک کہانیاں‘‘ یونسکو کی جانب سے سات زبانوں میں شائع ہوئی ۔ ان میں سے تین جرمن زباں میں ترجمہ ہوئیں۔ پاکستان رائیٹر گلڈ کی جانب سے ان کی کتاب ’’پنجاب رنگ ‘‘ پر انہیں داؤد ادبی انعام سے روازا گیا۔

تبصرہ نگاری ادب کی ایک معروف صنف ہے۔ عرصہ دراز سے پڑھنے والے شفیع عقیل کو کتابوں پر تبصرے کے حوالے سے ہی جانتے تھے۔ روزنامہ جنگ میں ’ش ع‘ کے نام سے ہر ہفتہ کئی کتابوں پر تبصرے شائع ہونا بنیادی وجہ تھی۔ تبصرہ اپنے معنی وسعت کے اعتبار سے اہمیت لیے ہوئے ہے۔ تبصرہ پڑھ کر کتاب کے بارے میں بڑی حد تک اندازہ کرلینا کہ اس میں کیا کچھ ہے آسان ہوتا ہے ۔ ایک مغربی مفکر نے تبصرے کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ’ ’تبصرہ دستاویز یا کتاب کے متن کو مختصر اور صحیح طو ر پر اس انداز سے بیان کرنا کہ وہ اصل دستاویز معلوم ہو‘‘، گویا تبصرہ اصل دستاویز کا نچوڑیا حاصل ہوتا ہے۔شفیع عقیل مرحوم کتاب پر تبصرے کے فن سے خوبی آگاہ تھے۔ انہوں نے اس فن میں انفرادیت قائم کرلی تھی۔ ان کے لکھے ہوئے تبصرے پڑھنے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے معاون ثابت ہوتے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری سوانحی خاکوں پر مشتمل کتاب ’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ جو
۲۰۱۲ء مین شائع ہوئی تھی پر شفیع عقیل مرحوم نے تبصرہ تحریر کیا۔ یہ تبصرہ روزنامہ جنگ کراچی کی اشاعت مورخہ ۶ جنوری ۲۰۱۳ء میں شائع ہوا۔انہوں نے لکھا کہ ’’اصناف ِ ادب میں خاکہ کسے کہتے ہیں؟ خاکہ نگاری کے اصول یا حدود و قیود کیا ہیں؟ کیا شخصیات کے بارے میں تعریفی توصیفی مضامین کو خاکہ کہا جائے گا؟ یا پھر عصمت چغتائی کا ’’دوزخی‘‘ خاکے کی تعریف میں آتا ہے؟ یہ ایک بحث طلب مسٔلہ ہے جس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔بہر صورت اردو ادب میں اکابرین نے بھی خاکے تحریر کیے ہیں اور موجودہ دور میں بھی بہت سے ادیب لکھ رہے ہیں۔یہ سلسلہ مولونامحمد حسین آزاد کی ’’آبِ حیات‘‘ سے بھی بہت پہلے اردو کے قدیم تذکروں میں کسی نہ کسی صورت میں ملتا ہے۔ اس طرح اگر خاکہ نویسوں کی فہرست ترتیب دی جائے تو طویل ہوجائے گی۔ در اصل ہمارے ہا ں خاکہ نویسی کا کوئی امتیاز نظر نہیں آتا، چنانچہ یادنگاری بھی اس میں شامل ہوگئی ہے۔سوانح نگاری بھی در آئی ہے، آراء نویسی بھی اس کا حصہ بن گئی ہے اور مصنف کے گزشتہ حالات و واقعات بھی اسی میں شریک ہوجاتے ہیں۔بہر صورت خاکوں پر مشتمل کئی کتابیں اردو کا سرمایہ بن گئی ہیں اور حوالے کے طور پر ان کا تذکرہ آتا ہے۔ ’’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘‘ میں بھی شخصی خاکے شامل ہیں۔مصنف پاکستان کی مختلف جامعات میں رہے ہیں، اس لیے ان کا مختلف علمی و ادبی شخصیات سے تعلق رہاہے، جن میں سے بعض کے انہوں نے خاکے تحریر کیے ہیں۔ان خاکوں میں سوانحی پہلو بھی ہیں اور خود مصنف کی اپنی یادداشتیں بھی شامل ہیں۔انہوں نے ان شخصیات کو جیسے دیکھا، ان کے مشاہدے میں کیا کیا باتیں آئیں؟ ان باتوں کا اظہار اس کتاب میں ہے‘‘۔ تبصرہ نگار کی خوبی اور مہارت دیکھئے کہ اس نے کتاب ، صاحبِ کتاب اور اس موضوع پر مختصر اظہار خیال خوبصورت انداز سے کیاہے۔ یہی ایک اچھے تبصرے کی خوبی بھی ہوتی ہے۔ تبصرہ کتاب کی تعریف و توصیف بیان کر نے کا نام نہیں ساتھ ہی غیر ضروری تنقید بھی تبصرہ نہیں کہلاتی اس میں میانہ روی اور غیر جانب داری کی چاشنی کا پایا جا نا تبصرے کی اصل روح ہے۔

شفیع عقیل نے علمی ، ادبی خدمت کے جو چراغ اپنے خون پسینے سے روشن کیے ہیں وہ ہمیشہ روشن رہیں گے۔پانچ دریاؤں کی سرزمین پر طلوع ہونے والا یہ ستارہ
۸۳ برس اپنی آب و تاب دکھا کر کراچی شہر کی مٹی میں۷ ستمبر ۲۰۱۳ء بروز جمعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیوند خاک ہوگیا۔اﷲ مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین۔
(شائع شدہ روزنامہ جنگ ،سنڈے میگزین
۲۲ ستمبر ۳ ۱ ۲۰ء)

ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے میں شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔


سب سے زیادہ قیمتی، Sab se Zyada Qimati,

سب سے زیادہ قیمتی (لوک کہانی)
کوئی آٹھ سو سال پہلے کی بات ہے، ہالینڈ میں ایک شہر بہت خوبصورت تھا ۔ یہ سمندر کے کنارے اب بھی واقع ہے اور سمندر کے تھپیڑوں کو روکنے کے لیے یہاں ایک بہت بڑا، اونچا اور مضبوط پشتہ بنا ہوا ہے۔ یہ پشتہ آٹھ سو سال پہلے بھی موجود تھا۔ اسی کی بدولت بڑے بڑے تجارتی جہاز ساحل کے قریب کھڑے رہ کر سامان اتارتے اور چڑھا سکتے تھے۔ وہ دور دراز ملکوں تک اپنا مال لے جاتے اور وہاں کا سامان لا کر فروخت کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ایک بڑا مال دار ملک تھا اور اس کی شان و شوکت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔
اس شہر کے لوگ مال و دولت کی وجہ سے مغرور اور سخت دل بھی ہو گئے تھے۔ خاص طور پر ایک بیوہ عورت اس لحاظ سے بہت آگے تھی کیوں کہ اس کے سات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے

 مکمل کہانی پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔
اس کہانی کو تصوری شکل میں اپنے موبائل یا کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے میں شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔



Lok Khani, قینچی اور درانتی

قینچی اور درانتی (لوک کہانی)
بہت عرصے کی بات ہے۔ ایک گائوں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ یوں تو وہ ہر لحاظ سے خوش حال رہتا تھا کیونکہ اس کا کھیت وسیع تھا اور فصل ہمیشہ عمدہ ہوتی تھی لیکن بیوی کی وجہ سے اس کا ناک میں دم رہتا تھا۔ وہ بہت ہی ضدی اور ہٹ دھرم تھی اور ہمیشہ الٹی بات سوچتی تھی۔ اسی لیے گائوں کے سب ملنے جلنے والوں نے اس کا نام ” الٹی کھوپڑی“ رکھ دیا تھا۔
جب وہ گھر سے باہر نکلتی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے، مکمل کہانی پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔ اس کہانی کو تصویری شکل میں اپنے موبائل یا کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے میں شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔

Lok Dastan, لوک داستان، اب میں خوش ہوں،

اب میں خوش ہوں
بہت پرانے زمانے کی بات ہے جب فلسطینی باشندے اپنی سرزمین میں امن و سکون سے رہا کرتے تھے۔ شہر خلیل میں ایک غریب خیاط (درزی) عمر رہا کرتا تھا۔ عمر بہت تنگ دستی  کے دن گزار رہا تھا۔ پھر بھی وہ اپنی قسمت سے شاکی نہیں تھا۔ اس کی جھونپڑی بہت پرانی اور خستہ ہوچکی تھی۔ مسلسل تنگ دستی اور غربت نے اس کے مزاج پر برا اثر ڈالا اور وہ چڑچڑا ہوگیا۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ اس طرح بھڑک اٹھتا، جیسے کوئی شخص بارود کے ڈھیر میں دیا سلائی لگادے۔ عمر کی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا۔ جھونپڑی میں وہ خود، اس کی بیٹی عارفہ اور نواسیاں مل جل کر رہتے تھے۔ کبھی کبھی عمر کو اپنی ننھی منی نواسیوں کا شور بھی ناگوار گزرتا اور نواسیوں کو غصے کے عالم میں برا بھلا کہہ ڈالتا۔ تب اس کی معصوم اور بھولی بھالی نواسیاں بری طرح سہم کر خاموشی ہوجایا کرتیں ان کے مسکراتے چہرے سنجیدہ ہوجاتے۔
ایک دن کی بات ہے، بچے حسب معمول ناشتے سے فارغ ہو کر کھیل رہے تھے، 
مکمل کہانی پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔ 
اس کہانی کو تصوری شکل  میں اپنے کمپیوٹر یا موبائل میں محفوظ کرنے کےلیے یہاں کلک کریں۔

ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے پر شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔

لوک داستان، Lok Dastan


لوک داستانوں کے مطالعے کی ضرورت ....؟
ڈیلی پاکستان ڈاٹ کام پر لکھے گئے ایک تبصرے  کو آپ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
 آپ ڈیلی پاکستان ڈاٹ کام پر بھی اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ 
قصے، کہانیاں یا داستانیں شروع سے ہی انسانی دلچسپی کا محور رہی ہیں کیونکہ داستانیں عقل کو نہ سہی تخیل کو ضرور اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔
 یہ انسانی تخیل کا ہی نتیجہ ہیں اور تخیل ایسی قوت ہے جو عقل سے برتر ہے ۔ ایچ جی ویلز نے تخیلی کہانیاں پہلے لکھیں.
 پہلے سائنس نے ان کی تکمیل بعد میں کی ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری داستانیں سائنس و ترقی کی پیش رو ثابت نہ ہو سکیں ۔
 تاہم یہ بات کہنے میں عار نہیں کہ لوک داستانیں انسان کی ان خواہشوں کا نتیجہ ہیں جن کے بغیر انسانیت ترقی نہیں کر سکتی تھی۔
 تاریخ انسانی کی اجتماعی فکر کی روایت کو لوک ادب ہی نے محفوظ رکھا۔
 یہ سر مایہ ادب آج کی تیز رفتا زندگی میں
نفسانفسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔ 
مکمل تبصرہ پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔


لوک داستانوں پر فلم بینی کے حوالے سے دنیا ڈاٹ کام کی ایک تحریر پڑھیے۔۔۔۔۔۔۔۔
لوک داستانیں ابتداء سے ہی عوامی دلچسپی کی حامل رہی  ہیں تاہم جب انہیںسلولائیڈ پرمنتقل کیا گیاتوان میںشائقین کی دلچسپی میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ وہ مقبول عام ہوگئیں۔لوک داستانیںہماری ثقافت اور ادب کا اہم حصہ ہیں جنہیں متعدد مصنفین اورصوفی شعرا ء نے اپنے الفاظ کے چمکدار موتیوں میں پرویا اور یہ داستانیں سلورسکرین کے افق پر کہکشاںبن کر جگمگائیں جن کی روشنی آج تک دھندلانہ پائی۔ اس لئے یہ برصغیرکے فلمسازوں کا پسندید ہ موضوع رہی ہیں۔ ان میں رنج والم، محبت اور اخلاقی اسباق سب موجود ہیں۔یہ ایسی داستانیں ہیںجوسینکڑوں برس گزر جانے کے باوجودابھی تک انتہائی دلچسپی سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔ برصغیر میں اس وقت لوک داستانوںکوفلمی شکل دی گئی جب ساکت فلموںکادورتھا۔فلم میکرزنے فلم کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے عوامی دلچسپی اورتفریح وطبع کے لئے ان میں بے شمارتبدیلیاں بھی کیں۔ برصغیر میں ’’ہیررانجھا‘‘’’لیلی مجنوں‘‘ ’’سسی پنوں‘‘ ’’سوھنی مہینوال‘ ‘’’مرزا صاحباں‘‘ ’’سہتی مراد‘‘ ’’شیریں فرہاد ‘‘’’پورن بھگت ‘‘’’گل بکائولی ‘‘’’وامق عذرا‘‘ ’’دلا بھٹی ‘‘’’انارکلی ‘‘اور’’تان سین ‘‘پرفلمیں بنائی گئیں مگر کچھ عرصہ سے پاک بھارت فلم انڈسٹری نے لوک داستانوں کے موضوعات کوفراموش کردیا ہے جبکہ میاںمحمدبخش ؒکی سیف الملوک پر آج تک کوئی فلم نہیں بنائی گئی ۔برصغیرمیں لوک داستان ’’ہیررانجھا‘‘پرپہلی بار فلم1928ء میں بنائی گئی اس وقت خاموش فلموںکادورتھا ۔فلم کی ہدایتکارہ فاطمہ بیگم تھیں اور ستاروں میں زبیدہ ،جانی بابواورشہزادی نے نمایاں کردار نبھائے۔ 1931ء میںجب فلموں کوآوازملی توہدایتکارجے پی ایڈوانی نے ’’ہیررانجھا‘‘ بنائی جس میں شانتاکماری ، ماسٹرفقیرحسین اورحیدرشاہ نے اپنی صلاحتوں کو اجاگر کیا۔1937ء میں ہدایتکاراے آرکاردارنے لاہور میں فلم ’’ہیررانجھابنائی ‘‘بنائی جس کے ہیرواداکارہ اور گلوکارہ سلمی آغاکے نانارفیق غزنوی تھے اورانوری ہیر کے کردارمیں جلوہ گرہوئیں ۔ان کے علاوہ ،لالہ یعقوب ، ایم اسماعیل اورگل حمید نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔اسی سال ہدایتکار کرشن دیومہرہ نے اس لوک داستان کو’’ہیرسیا ل ‘‘ کے نام سے فلمایا۔ اداکاروں میں بی این بالی، اقبال بیگم ،ایم اسماعیل ، شمشاد بیگم ، اے آرکشمیری ، نورجہاں کی بہن حیدر باندی اورعیدن شامل تھے ۔اس فلم میں انہوں نے خود بھی بے بی نورجہاں کے نام سے کام کیا تھا۔ 1955ء میں ہدایتکارنذیرنے اس لوک داستان کو ’’ہیر‘‘کے نام سے فلمایا جس میںسورن لتانے ہیر اورگلوکارعنایت حسین بھٹی نے رانجھے کا کردار نبھایا تھا۔دیگرفنکاروںمیں نذراورزینت نے بھی اہم کردار اداکئے ۔اس فلم کے نغمات نے ملک بھرمیں دھوم مچادی جن کی موسیقی صفدرحسین نے تخلیق کی تھی ۔ اس کے بعد ہدایتکارجعفربخاری نے ’’ہیرسیال ‘‘بنائی جس میں فر دوس اوراکمل مرکزی کردارو ںمیں جلوہ گر ہوئے ۔ان کے علاوہ ایم اسماعیل ،ناصرہ ،ممتاز،گل زماں اورآصف جاہ نے اپنے فن کامظاہرہ کیا۔ 1970ء میں ہدایتکارمسعودپرویزنے ’’ہیر رانجھا‘‘ بنائی جس میں فردوس ،اعجازاوراجمل نے اس قدر ڈوب کراداکاری کی کہ حقیقت کاگمان ہوتاہے۔ ان کی فطری اداکار ی نے شا ئقین کوبے حدمتاثرکیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فلم میں پنجاب کی ثقافت کوبھی اجاگرکیا گیا ۔اس فلم نے پورے برصغیرمیں دھوم مچا دی اوراس کی مقبولیت میں آج تک کمی نہیں آئی۔فلم کے دیگراہم فنکاروںمیں زمرد،رنگیلااورمنورظریف شامل تھے۔مقبول صحرائی لوک داستان لیلی مجنوں پربرصغیرپاک وہندمیں چھ فلمیں بنائی گئیں۔پہلی خاموش فلم ’’لیلی مجنوں‘‘ہدایتکارجے جے میڈن نے 1922ء میں بنائی جس میں وارنگ اورجے شیرون کومرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا گیا ۔دوسری خاموش فلم ’’لیلی مجنوں‘‘1927ء میں ہدایتکارکے راٹھورنے تخلیق کی ۔جس کے فنکاروںمیں رفیق غزنوی ،رام پیاری،حیدرشاہ اورحکم نمایاں تھے۔اسی سال ہدایتکارجے جے میڈن  نے ایک بارپھر’’لیلی مجنوں ‘‘بنانے کاتجربہ کیا۔جس میں اداکارہ جہا ں آراء کجن اورماسٹرنثارنے مرکزی کرداراداکئے ۔ 1940ء میں بننے والی فلم ’’لیلی مجنوں‘‘کی ڈائریکشن ہدایتکار راج ہنس نے دی تھی جس میں پشپارانی ،وزیربیگم ، رنجیت کماری ،پی این بالی اورڈارکاشمیری نے اداکاری کی ۔1947ء میں ہدایتکارشریف نیرّ نے ہند پکچرز تلے ’’لیلی مجنوں‘‘بنائی جس میں سورن لتا،نذیر،ایم اسماعیل ،گوپ اورکے این سنگھ نمایا ںاداکارتھے۔فلم کی موسیقی نے دھوم مچادی جبکہ فلم بینوں نے سورن لتا اور ایم اسماعیل کی کردا رنگاری کوبہت پسند کیا۔ ہدایتکار انورکمال پاشا نے اسی لوک داستان کو 1957ء میں سلولائیڈ پرمنتقل کیا جس میں بہار اور اسلم پرویزنے اداکاری کے جوہردکھائے۔اس کے ساتھ ہی ہدایتکار منشی دل نے ’’عشق لیلی‘‘کے نام سے فلم بنائی جس میں صبیحہ اورسنتوش مرکزی کرداروںمیں جلوہ گر ہوئے اوریہ دونوں فلمیں ایک ہی روزنمائش کے لئے پیش کی گئیں۔ 1971ء میں ہدایتکارایس اے غفار نے ’’لیلی مجنوں‘‘ سندھی زبان میں بنائی جس میں مہ پارہ اور مشتاق چنگیزی نے مرکزی کردارانجام دئیے۔ 1973ء میں ہدایتکاراے ریاض نے ’’لیلی مجنوں ‘‘ بنائی جس کے مرکزی کرداروں میں دیبااوروحید مراد کو پیش کیاگیا۔ 1974ء میں ہدایتکارحسن طارق نے بھی ’ ’لیلی مجنوں ‘‘تخلیق کی جس میں وحید مراد،رانی کی کردار نگاری ایک عرصہ تک شائقین کی توجہ کامرکزبنی رہی۔لوک داستان سسی پنوں کو پہلی بارہدایتکارایچ ایم مہرہ نے 1928ء میں فلمبندکیا۔جس کے اداکاروں میں زیب النساء ،وٹھل اورخلیل نمایا ں تھے۔1932ء میں ہدایتکار این موجمعدار نے ’’سسی پنوں‘‘ بنائی جس  میں سوشیلا،نندرام ،موجمعدار اور نور جہا ں نے اداکاری کی ۔1939ء میں’’سسی پنوں ‘‘ کو پنجابی زبان میں بنایاگیا۔جس کے ہدایتکاردائود چاندتھے۔فلم میںاقبال بیگم بالو،اسلم ،حیدرباندی ، عیدن ،نورجہاں،پشپارانی ،نظیر بیگم اورعبدالرحمن نے کردار نگاری کی ۔1946ء میں ہدایتکارجے پی ایڈوانی نے سسی پنوں بنائی جس میں گیتانظامی ،جے راج ،ببو،گوپ اور ای بلیموریا جلوہ گر ہوئے۔ 1954 ء میں ہدایتکاردائودچاندنے رومانوی داستان کو ’’سسی ‘‘دوبارہ عکسبند کیاجس میں صبیحہ ، سدھیر، آشا پوسلے ،سیلم رضااورغلام محمدنے ادکاری کے جوہر دکھائے ۔ 1968ء میں ہدایتکار ریاض احمدنے سسی پنو ں بنائی جس کے ستاروں میں نغمہ ،اقبال حسن ، عالیہ ، اور منور ظریف شامل تھے۔1972ء میں ہدایتکار مسعودپرویزنے ’’پنوں دی سسی ‘‘ کے نام سے فلم بنائی جس میں سنگیتااوراعجازنے مرکزی کردار نبھائے۔ 2004ء میں آغاحسن عسکری نے ’’سسی پنوں ‘‘ بنائی جس میں اداکارہ ثناء اورمعمررانانے مرکزی کردار نبھائے۔سوھنی مہینوال کو پہلی بار 1929ء میں کے بی بھادے نے فلمایاجس میں گوہر،نیلم جمشید جی اور ڈبلیوایم خان نے اداکاری کی ۔اسی سال ایچ مہتہ نے اس داستان کو فلمبندکیاجس میں زیب النساء اورماسٹروٹھل نے مر کزی کردار نبھائے ۔ 1933ء میں ہدایتکار ایچ مہتہ نے ایک بارپھرسوہنی مہینوال بنائی جس میں گوہر، امیربائی اورکرناٹکی کو کاسٹ کیا ۔ ہدایتکار روپ لال نے اس مقبول داستان کو 1937ء میںبنایاجس کے اداکارو ںمیں الماس ، ماسٹر بشیر اور ایم اسماعیل شامل تھے۔1946میں ہدایتکار ایشورلعل نے یہ فلم بنائی جس میں ایشورلال ، بیگم پارہ اورمبارک بی بی نے اپنے فن کامظاہرہ کیا ۔ 1955ء میں ہدایتکارایم جے رانا نے اس داستان کو ’’سوھنی ‘‘ کے نام سے تخلیق کیا ۔جس کے فنکاروں میں صبیحہ ، سدھیر،شمی اورنذرنے نمایاں کردار ادا کئے۔ ہدایتکار ولی نے اس رومانوی داستان کوسوہنی کمہارن کے نام سے سلورسکرین پرپیش کیا ۔جس میں بہار اور اسلم پرویز مرکزی کرداروں میں جلوہ گر ہوئے۔ 1976ء میں ہدایتکاررضامیر نے ’’سوہنی مہینوال ‘‘ بنائی جس میں ممتازاوریوسف خان نے مرکزی کردارانجام دئیے۔ لوک داستان مرزا صاحباں پہلی بار1929ء کوپردہ سکرین کی زینت بنی جس کی ڈائریکشن اے پی کپورنے دی تھی ۔ مرکزی کردارزیب النساء اور نندرام نے اداکئے ۔ ہدایتکار موجمعدارنے یہ عشق و محبت کی داستان 1933 ء میں تخلیق کی جس کے اداکاروں میں ببو، محبوب ، کملا اورکاشی ناتھ تھے ۔ ہدایتکارجی آرسیٹھی نے مرزاصاحباں 1935ء میں بنائی جس میں خورشید، بھائی دلیا، چھیلا اور امیر علی نمایاں اداکار تھے ۔ 1939میں ہدایتکارمدھوک نے اس لوک داستان کو ایکسپوزکیا جس میں ایلادیوی ،ظہوراجہ ، اے شاہ اور کلیانی جلوہ گرہوئے۔ 1947ء میں مرزا صاحباں کو کے امرناتھ نے فلمایا۔ جس میں نورجہاں ، ترکوک کپور، گلاب ،امیر بانو اور روپ کمل نمایا ں تھے ۔ ہدایتکارشریف نیرنے اردو زبان میں مرزاصاحباں بنائی جس میں مسرت نذیر، سدھیر، یاسمین اور علائوالدین نے مسحورکن اداکاری کی ۔ 1982میں ہدایتکارجہانگیرقیصرنے مرازجٹ کے نام سے اس داستان کوفلمبند کیاجس میںیوسف خان ،انجمن ،نازلی اورخالد سیلم موٹانے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔سہتی مراد کی داستان کوپہلی بار ہدایتکار برکت مہرہ نے 1941ء میں بنایا جس میںراگنی رام لال ،منورما اور رضیہ گل نمایاں فنکار تھے۔ 1957ء میں ہدایتکار ایم جے رانانے سہتی مراد کو سلولائیڈ پرمنتقل کیا۔اس کے فنکاروں میں مسرت نذیر ، اکمل ، نیلواورطالش شامل تھے ۔1968ء میں بننے والی اس رومانوی داستان میں اعجازاورفردوس مرکزی کرداروں میں جلوہ گرہوئے جس کی ہدایات مسعودپرویزنے دیں۔شریں فرہاد کوپہلی بار1926 ء میں ہدایتکار ہومی واڈیا نے بنایا جس میں اداکارہ گوہراورخلیل نے نمایا ں کرداراداکئے ۔ہدایتکارجے جے میڈن نے شریں فرہاد1931ء میں بنائی جس میں ماسٹر نثار اور کجن جلوہ گرہوئے ۔1945ء میں فلمساز دل سکھ ایم پنچولی نے اس لوک داستان پرفلم بنانے کاتجربہ کیا۔ 1946میں پرہلادت کی زیرہدایت بننے والی فلم شیریں فرہاد میں راگنی ،جنیت ،غلام محمداورنفیس نے اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ 1947ء میں اس داستان پر چاربارفلمیں بنائی گئیں جن میں دوبارخاموش فلمیں بنیں ۔ ہدایتکارشریف نیرنے 1975ء میں’’شیریں فرہاد‘‘ بنائی جس میں زیبا، محمد علی، طالش اورعلاؤالدین نمایاں تھے۔لوک داستا ن پورن بھگت پہلی بار1928ء میںہدایتکارپیسی کرنی نے بنائی جس میں جمشید جی ،ارملین اورجلوبائی نے مرکزی کردار ادا کئے ۔1933ء میںبننے والی اس داستان کے تخلیق کارڈاکٹردیوکی بوس تھے اور فنکاروں میں انوری ،کمار،کے سی دے نمایا ں تھے ۔ ہدایتکار روشن لال شوری نے اس داستان کو1939ء میں سلور سکرین کی زینت بنایا تھاجس میں انوری ،کرن دیوان ، حیدر باندی اوراے آرکپورنے کردارنگاری کی تھی۔گل بکاؤلی پہلی بار1924 ء میں بنائی گئی ۔جس کے ہدایتکارکے راٹھورتھے اورفنکاروں میںگلاب اور وشنو شامل تھے ۔ 1931ء میںاس داستان کو اے پی کپور نے فلمایا جس میں زیب النساء ، اشرف خان ، نجوبیگم اور پربھاتا نمایاں تھے۔ ہدایتکار برکت مہرہ نے گل بکاؤلی 1939ء میںبنائی جس کے مرکزی کرداروں میں ہیم لتا، ثریا جبیں ،سیلم رضااورایم اسماعیل شامل تھے۔ 1947ء میں مودی نے گل بکائو لی بنائی جس میں مرکزی کردار منیکا نے نبھایا ۔ 1961ء بننے والی فلم ’’گل بکاؤلی‘‘ کی ہدایات منشی دل نے دیں اور کاسٹ میں جمیلہ رزاق اور سدھیر شامل تھے۔ ہدایتکار رشید چودھری نے اس داستان کو 1970ء میں فلمایا جس میں نغمہ اورکیفی نمایاں تھے۔ وامق عذرا کو پہلی بار 1935ء میں فلمبند کیاگیا ۔ ترت بوس کی زیرہدایت بننے والی اس فلم کی کاسٹ میں اندرا،ترلوک کپور اور اے آرکابلی شامل تھے۔ 1947ء میں ہدایتکار نذیر نے بھی اس داستان کوپکچرائزکیا۔جس میںسورن لتا کے ساتھ وہ خود ہیرو کے روپ میں جلوہ گرہوئے ۔ 1962ء میں ہدایتکار منشی دل نے ’’عذرا‘‘کے نام سے فلم بنائی جس میں نیلو ، اعجاز،علائوالدین اورایم اسماعیل نے خوبصورت انداز میں کردارنگاری کی ۔ لوک داستان دلابھٹی 1940ء میں پہلی بارفلمبند کی گئی جس کے ہدایتکارادپ کمارشوری تھے جبکہ کنور، مجنوں،راگنی اورستیش نے اداکاری کی تھی ۔1956ء میں ہدایتکار ایس ایم ڈارنے اس فلم کوپنجابی میںبنایا ۔ جس میں سدھیر، صبیحہ ،ایم اسماعیل اورآشاپوسلے نمایاں فنکار تھے۔ مغلیہ دورکی لازوال داستان انارکلی کو پہلی بار ہدایتکار آر ایس چودھری نے 1928ء میں فلمایا۔ جس میں سلوچنا ڈی بلیموریا ،جلوبائی اورجمشید جی نے اداکاری کے جوہردکھائے۔اسی سال اس فلم کو ’’لوآف اے مغل پرنس ‘‘کے نام سے بھی بنایا گیا۔ پر فلارے کمارکی ڈائریکشن میں بننے والی فلم میں سیتا دیوی اور سوان سنگھ نے مرکزی کردار نبھائے۔ 1935ء میں اس ر ومانوی داستان کو’’انارکلی ‘‘ کے نام سے دہرایا گیا ۔جس کی ہدایتکاری آرایس چودھری نے کی ۔فنکاروں میں سلوچنااورڈی بلموریا نمایاں تھے۔1952ء کوایک بارپھراس داستان کو انار کلی کے نا م سے بنایا گیا جس کے ہدایتکارزنندلال جسونت لال تھے۔فلم میں بینارائے اورپردیپ کمار نے شاندار اداکاری کی ۔1958ء میں ہدایتکار انور کمال پاشانے نورجہاں اورسدھیرکولے کراس داستان پرفلم بنائی جس کے گیتوں نے برصغیرمیں حشر بر پا کر دیا ۔1960ء میں ہدایتکارکے آصف نے اس داستان کومغل اعظم کے نام سے فلمایا جس میں دلیپ کمار،مدھوبالا اورپرتھوی راجکپورنے اپنی دلکش اداکاری کے ذریعے کرداروں میں حقیت کارنگ بھردیا ۔سرو ں کی دنیا سے تعلق رکھنے والی داستان تان سین پہلی بار1943ء میں بنائی گئی جس میں خورشید بانونے تانی اورسہگل نے تان سین کالافانی کردار ادا کیا۔1972 ء میں اس داستان کو ہدایتکار ایس اے حافظ نے فلمبند کیاجس میں تان سین کاکردارمصطفے قریشی نے نبھایا۔ان کے علاوہ زیبا،محمدعلی ،آغاطالش اورلہری نے بھی خوبصورت اداکاری کامظاہرہ کیا۔ ٭…٭…٭
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-12-03/7196#.Vzm4op6d61s

ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے پر شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔

Mazaameen in Urdu, مضامین

السلام علیکم! پیارے طلباء
آج  آپ کے لیے مضمون وقت کی پابندی  اور اس عنوان کے متعلق معلومات  اس صفحے پر محفوظ کر رہا ہوں،
کچھ ہی دیر بعد آپ اپنا ہوم ورک اور وقت کی پابندی کے متعلق معلومات پڑھ سکیں گے۔


مضمون "وقت کی پابندی" مکمل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے پر شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔

ایکٹریس کی آنکھ

ایکٹریس کی آنکھ                         سعادت حسن منٹو

’’پاپوں کی گٹھڑی‘‘ کی شوٹنگ تمام شب ہوتی رہی تھی،رات کے تھکے ماندے ایکٹر لکڑی کے کمرے میں جو کمپنی کے ولن نے اپنے میک اپ کے لیے خاص طور پرتیار کرایا تھا اور جس میں فرصت کے وقت سب ایکٹر اور ایکٹرسیں سیٹھ کی مالی حالت پر تبصرہ کیا کرتے تھے، صوفوں اور کرسیوں پر اونگھ رہے تھے۔ اس چوبی کمرے کے ایک کونے میں میلی سی تپائی کے اوپر دس پندرہ چائے کی خالی پیالیاں اوندھی سیدھی پڑی تھیں جو شاید رات کو نیند کا غلبہ دُور کرنے کے لیے ان ایکٹروں نے پی تھیں۔ان پیالوں پر سینکڑوں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ کمرے کے باہر ان کی بھنبھناہٹ سُن کر کسی نووارد کو یہی معلوم ہوتا کہ اندر بجلی کا پنکھا چل رہا ہے۔ دراز قد وِلن جو شکل و صورت سے لاہور کا کوچوان معلوم ہوتا تھا، ریشمی سوٹ میں ملبوس صوفے پر دراز تھا۔ آنکھیں کھلی تھیں اور منہ بھی نیم وا تھا۔ مگر وہ سو رہا تھا۔ اسی طرح اس کے پاس ہی آرام کرسی پر ایک مونچھوں والا ادھیڑ عمر کا ایکٹر اونگھ رہا تھا۔ کھڑکی کے پاس ڈنڈے سے ٹیک لگائے ایک اور ایکٹر سونے کی کوشش میں مصروف تھا۔ کمپنی کے مکالمہ نویس یعنی منشی صاحب ہونٹوں میں بیڑی دبائے اور ٹانگیں، میک اپ ٹیبل پر رکھے، شاید وہ گیت بنانے میں مصروف تھے جو انھیں چار بجے سیٹھ صاحب کو دکھانا تھا۔’’ اُوئی، ’’اُوئی۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہائے۔‘‘ دفعتاً یہ آواز باہر سے اس چوبی کمرے میں کھڑکیوں کے راستے اندر داخل ہُوئی۔ ولن صاحب جھٹ سے اُٹھ بیٹھے اور اپنی آنکھیں ملنے لگی۔ مونچھوں والے ایکٹر کے لمبے لمبے کان ایک ارتعاش کے ساتھ اس نسوانی آواز کو پہچاننے کے لیے تیار ہُوئے۔ منشی صاحب نے میک اپ ٹیبل پر سے اپنی ٹانگیں اُٹھالیں اور ولن صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔ ’’اُوئی، اُوئی، اُوئی۔۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔۔۔۔ ہائے۔‘‘ اس پر، ولن، منشی اور دوسرے ایکٹر جو نیم غنودگی کی حالت میں تھے چونک پڑے، سب نے کاٹھ کے اس بکس نما کمرے سے اپنی گردنیں باہر نکالیں۔ ’’ارے، کیا ہے بھئی۔‘‘ ’’خیر تو ہے!‘‘ ’’کیا ہُوا؟‘‘ ’’اماں، یہ تو۔۔۔۔۔۔ دیوی ہیں!‘‘ ’’کیا بات ہے! دیوی؟‘‘ جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔۔۔۔ کھڑکی میں سے نکلی ہُوئی ہر گردن بڑے اضطراب کے ساتھ متحرک ہُوئی اور ہر ایک کے منہ سے گھبراہٹ میں ہمدردی اور استفسار کے ملے جلے جذبات کا اظہار ہوا۔ ’’ہائے، ہائے، ہائے ۔۔۔۔۔۔ اُوئی ۔۔۔۔۔۔ اُوئی!‘‘ ۔۔۔۔۔۔ دیوی، کمپنی کی ہر دلعزیز ہیروئن کے چھوٹے سے منہ سے چیخیں نکلیں اور باہوں کو انتہائی کرب و اضطراب کے تحت ڈھیلا چھوڑ کر اس نے اپنے چپل پہنے پاؤں کو زور زور سے اسٹوڈیوکی پتھریلی زمین پر مارتے ہوئے چیخنا چلانا شروع کردیا۔ ٹھمکا ٹھمکا بوٹا سا قد، گول گول گدرایا ہُوا ڈیل، کھلتی ہوئی گندمی رنگت خوب خوب کالی کالی تیکھی بھنویں، کھلی پیشانی پر گہرا کسوم کا ٹیکا۔۔۔۔۔۔ بال کالے بھونراسے جو سیدھی مانگ نکال کر پیچھے جوڑے کی صورت میں لپیٹ دے کرکنگھی کیے ہوئے تھے، ایسے معلوم ہوتے تھے، جیسے شہد کی بہت سی مکھیاں چھتے پربیٹھی ہُوئی ہیں۔ کنارے دار سفید سوتی ساڑھی میں لپٹی ہُوئی، چولی گجراتی تراش کی تھی، بغیر آستینوں کے، جن میں سے جوبن پھٹا پڑتا تھا، ساڑھی بمبئی کے طرز سے بندھی تھی۔ چاروں طرف میٹھا میٹھا جھول دیا ہوا تھا۔۔۔ گول گول کلائیاں جن میں کُھلی کُھلی جاپانی ریشمین چوڑیاں کھنکنا رہی تھیں۔ ان ریشمین چوڑیوں میں ملی ہوئی ادھر ادھر ولایتی سونے کی پتلی پتلی کنگنیاں جھم جھم کررہی تھیں، کان موزوں اور لویں بڑی خوبصورت کے ساتھ نیچے جھکی ہوئیں، جن میں ہیرے کے آویزے، شبنم کی دو تھراتی ہوئی بوندیں معلوم ہورہی تھیں۔ چیختی چلاتی، اور زمین کو چپل پہنے پیروں سے کوٹتی، دیوی نے داہنی آنکھ کو ننھے سے سفید رومال کے ساتھ ملنا شروع کردیا۔ ’’ہائے میری آنکھ۔۔۔۔۔۔ ہائے میری آنکھ۔۔۔۔۔۔ ہائے!‘‘ کاٹھ کے بکس سے باہر نکلی ہوئی کچھ گردنیں اندر کو ہوگئیں اور جو باہر تھیں، پھر سے ہلنے لگیں۔ ’’آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے؟‘‘ ’’یہاں کنکر بھی تو بیشمار ہیں۔۔۔۔۔۔ ہَوا میں اُڑتے پھرتے ہیں۔‘‘ ’’یہاں جھاڑو بھی تو چھ مہینے کے بعد دی جاتی ہے۔‘‘ ’’اندر آجاؤ، دیوی۔‘‘ ’’ہاں، ہاں، آؤ۔۔۔۔۔۔ آنکھ کو اس طرح نہ ملو۔‘‘ ’’ارے بابا۔۔۔۔۔۔ بولا نہ تکلیف ہو جائیگی۔۔۔ تم اندر تو آؤ۔‘‘ آنکھ ملتی ملتی، دیوی کمرے کے دروازے کی جانب بڑھی۔ ولن نے لپک کر تپائی پر سے بڑی صفائی کے ساتھ ایک رومال میں چائے کی پیالیاں سمیٹ کر میک اپ ٹیبل کے آئینے کے پیچھے چھپا دیں اور اپنی پُرانی پتلون سے ٹیبل کو جھاڑپونچھ کر صاف کردیا۔ باقی ایکٹروں نے کرسیاں اپنی اپنی جگہ پر جما دیں اور بڑے سلیقے سے بیٹھ گئے۔ منشی صاحب نے پرانی ادھ جلی بیڑی پھینک کر جیب سے ایک سگرٹ نکال کر سلگانا شروع کردیا۔ دیوی اندر آئی۔ صوفے پرسے منشی صاحب اور ولن اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ منشی صاحب نے بڑھ کر کہا۔’’ آؤ، دیوی یہاں بیٹھو۔‘‘ دروازے کے پاس بڑی بڑی سیاہ و سفید مونچھوں والے بزرگ بیٹھے تھے، ان کی مونچھوں کے لٹکے اور بڑھے ہوئے بال تھرتھرائے اور انھوں نے اپنی نشست پیش کرتے ہوئے گجراتی لہجہ میں کہا۔’’ادھر بیسو۔‘‘ دیوی ان کی تھرتھراتی ہوئی مونچھوں کی طرف دھیان دیئے بغیر آنکھ ملتی اور ہائے ہائے کرتی آگے بڑھ گئی۔ ایک نوجوان نے جو ہیرو سے معلوم ہورہے تھے اور پھنسی پھنسی قمیض پہنے ہوئے تھے، جھٹ سے ایک چوکی نما کرسی سرکا کر آگے بڑھا دی اور دیوی نے اس پر بیٹھ کر اپنی ناک کے بانسے کو رومال سے رگڑنا شروع کردیا۔ سب کے چہرے پر دیوی کی تکلیف کے احساس نے ایک عجیب و غریب رنگ پیدا کردیا تھا۔ منشی صاحب کی قوتِ احساس چونکہ دوسرے مردوں سے زیادہ تھی، اس لیے چشمہ ہٹا کر انھوں نے اپنی آنکھ ملنا شروع کردی تھی۔ جس نوجوان نے کرسی پیش کی تھی، اس نے جُھک کر دیوی کی آنکھ کا ملاحظہ کیا اور بڑے مفکرانہ انداز میں کہا۔’’آنکھ کی سرخی بتا رہی ہے کہ تکلیف ضرور ہے۔‘‘ ان کا لہجہ پھٹا ہوا تھا۔ آواز اتنی بلند تھی کہ کمرہ گونج اٹھا۔ یہ کہنا تھا کہ دیوی نے اور زور زور سے چلانا شرع کردیا اور سفید ساڑھی میں اس کی ٹانگیں اضطراب کا بے پناہ مظاہرہ کرنے لگیں۔ ولن صاحب آگے بڑھے اور بڑی ہمدردی کے ساتھ اپنی سخت کمر جُھکا کر دیوی سے پوچھا۔’’جلن محسوس ہوتی ہے یا چُبھن!‘‘ ایک اور صاحب جو اپنے سولا ہیٹ سمیت کمرے میں ابھی ابھی تشریف لائے تھے، آگے بڑھ کے پوچھنے لگے۔’’ پپوٹوں کے نیچے رگڑ سی محسوس تو نہیں ہوتی۔‘‘ دیوی کی آنکھ سرخ ہورہی تھی۔ پپوٹے ملنے اور آنسوؤں کی نمی کے باعث مَیلے مَیلے نظر آرہے تھے۔ چتونوں میں سے لال لال ڈوروں کی جھلک چک میں سے غروبِ آفتاب کا سرخ سرخ منظر پیش کررہی تھی۔ داہنی آنکھ کی پلکیں نمی کے باعث بھاری اور گھنی ہوگئی تھیں، جس سے ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے تھے۔ باہیں ڈھیلی کرکے دیوی نے دکھتی آنکھ کی پتلی نچاتے ہوئے کہا۔ ’’آں۔۔۔ بڑی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ ہائے۔۔۔ اُوئی!‘‘ اور پھر سے آنکھ کوگیلے رومال سے ملنا شروع کردیا۔ سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے جو کونے میں بیٹھے تھے، بلند آواز میں کہا۔’’ اس طرح آنکھ نہ رگڑو، خالی پیلی کوئی اور تکلیف ہو جائے گا۔‘‘ ’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔۔ ارے، تم پھر وہی کررہی ہو۔‘‘ پھٹی آواز والے نوجوان نے کہا۔ ولن جو فوراً ہی دیوی کی آنکھ کو ٹھیک حالت میں دیکھنا چاہتے تھے، بگڑ کر بولے۔’’ تم سب بیکار باتیں بنا رہے ہو۔۔۔۔۔۔ کسی سے ابھی تک یہ بھی نہیں ہوا کہ دوڑ کر ڈاکٹر کو بُلا لائے۔۔۔۔۔۔ اپنی آنکھ میں یہ تکلیف ہو توپتہ چلے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے مڑ کر کھڑکی میں سے باہر گردن نکالی اور زور زور سے پکارنا شروع کیا۔’’ارے۔۔۔۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی ہے؟ گُلاب؟ گُلاب!‘‘ جب ان کی آواز صدابصحرا ثابت ہُوئی تو انھوں نے گردن اندر کو کرلی اور بڑبڑانا شروع کردیا۔’’خدا جانے ہوٹل والے کا یہ چھوکرا کہاں غائب ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ پڑا اونگھ رہا ہوگا اسٹوڈیو میں کسی تختے پر۔ مردُود نابکار۔‘‘ پھر فوراً ہی دُور اسٹوڈیو کے اس طرح گلاب کو دیکھ کر چلائے، جو انگلیوں میں چائے کی پیالیاں لٹکائے چلا آرہا ہے۔’’ارے گلاب۔۔۔گلاب!‘‘ گلاب بھاگتا ہُوا آیا اور کھڑکی کے سامنے پہنچ کر ٹھہر گیا۔ ولن صاحب نے گھبرائے ہوئے لہجہ میں اس سے کہا۔’’دیکھو! ایک گلاس میں پانی لاؤ۔ جلدی سے۔۔۔بھاگو!‘‘ گلاب نے کھڑے کھڑے اندر جھانکا، دیکھنے کے لیے کہ یہاں گڑ بڑ کیا ہے۔۔۔ اس پر ہیرو صاحب للکارے’’ارے دیکھتا کیا ہے۔۔۔ لا، نا کلاس میں تھوڑا سا پانی۔۔۔ بھاگ کے جا، بھاگ کے!‘‘ گلاب سامنے، ٹین کی چھت والے ہوٹل کی طرف روانہ ہوگیا۔ دیوی کی آنکھ میں چبھن اور بھی زیادہ بڑھ گئی اور اس کی بنارسی لنگڑے کی کیری ایسی ننھی منی ٹھوڑی روتے بچے کی طرح کانپنے لگی اور وہ اُٹھ کر درد کی شدت سے کراہتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔ دستی بٹوے سے ماچس کی ڈبیا کے برابر ایک آئینہ نکال کر اس نے اپنی دُکھتی آنکھ کو دیکھنا شروع کردیا۔ اتنے میں منشی صاحب بولے۔’’ گلاب سے کہہ دیا ہوتا۔۔۔۔۔۔ پانی میں تھوڑی سی برف بھی ڈالتا لائے!‘‘ ’’ہاں، ہاں، سرد پانی اچھا رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر ولن صاحب کھڑکی میں سے گردن باہر نکال کرچلائے۔’’گلاب۔۔۔ ارے گلاب۔۔۔ پانی میں تھوڑی سی برف چھوڑ کے لانا۔‘‘ اس دوران میں ہیرو صاحب جو کچھ سوچ رہے تھے، کہنے لگے’’ میں بولتا ہوں کہ رومال کو سانس کی بھانپ سے گرم کرو اور اس سے آنکھ کو سینک دو۔۔۔ کیوں دادا؟‘‘ ’’ایک دم ٹھیک رہے گا!‘‘ سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے سر کو اثبات میں بڑے زور سے ہلاتے ہُوئے کہا۔ ہیرو صاحب کھونٹیوں کی طرف بڑھے۔ اپنے کوٹ میں سے ایک سفید رومال نکال کر دیوی کو سانس کے ذریعے سے اس کو گرم کرنے کی ترکیب بتائی اور الگ ہو کرکھڑے ہوگئے۔ دیوی نے رومال لے لیا اور اسے منہ کے پاس لے جا کر گال پُھلا پُھلا کر سانس کی گرمی پہنچائی، آنکھ کو ٹکور دی مگر کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ ’’کچھ آرام آیا؟‘‘ سولاہیٹ والے صاحب نے دریافت کیا۔ دیوی نے رونی آواز میں جواب دیا۔’’ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ ابھی نہیں نکلا۔۔۔ میں مر گئی!۔۔۔‘‘ اتنے میں گلاب پانی کا گلاس لے کر آگیا۔ ہیرو اور ولن دوڑ کربڑھے اور دونوں نے مل کر دیوی کی آنکھ میں پانی چوایا۔ جب گلاس کا اپنی آنکھ کو غسل دینے میں ختم ہوگیا، تو دیوی پھر پانی جگہ پر بیٹھ گئی اور آنکھ جھپکانے لگی۔ ’’کچھ افاقہ ہُوا۔‘‘ ’’اب تکلیف تو نہیں ہے؟‘‘ ’’کنکری نکل گئی ہوگی۔‘‘ ’’بس تھوڑی دیر کے بعد آرام آجائے گا!‘‘ آنکھ دھل جانے پر پانی کی ٹھنڈک نے تھوڑی دیر کے لیے دیوی کی آنکھ میں چُبھن رفع کردی، مگر فوراً ہی پھر سے اس نے درد کے مارے چلانا شروع کردیا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے ایک صاحب باہر سے اندر آئے اور دروازے کے قریب کھڑے ہوکر معاملے کی اہمیت کو سمجھنا شروع کردیا۔ نووارد کُہنہ سال ہونے کے باوجود چُست و چالاک معلوم ہوتے تھے۔ مونچھیں سفید تھیں، جو بیڑی کے دھوئیں کے باعث سیاہی مائل زرد رنگت اختیار کر چکی تھیں، ان کے کھڑے ہونے کا انداز بتا رہا تھا کہ فوج میں رہ چکے ہیں۔ سیاہ رنگ کی ٹوپی سر پر ذرا اس طرف ترچھی پہنے ہُوئے تھے۔ پتلون اور کوٹ کا کپڑا معمولی اور خاکستری رنگ کا تھا۔ کولھوں اور رانوں کے اُوپر پتلون میں پڑے ہُوئے جھول اس بات پر چغلیاں کھا رہے تھے کہ ان کی ٹانگوں پر گوشت بہت کم ہے۔ کالر میں بندھی ہوئی میلی نکٹائی کچھ اس طرح نیچے لٹک رہی تھی کہ معلوم ہوتا تھا، وہ ان سے روٹھی ہُوئی ہے، پتلون کا کپڑا گھٹنوں پر کھچ کر آگے بڑھا ہُوا تھا، جو یہ بتا رہا تھا کہ وہ اس بے جان چیز سے بہت کڑا کام لیتے رہے ہیں، گال بڑھاپے کے باعث بہ پچکے ہوئے، آنکھیں ذرا اندر کو دھنسی ہُوئیں، جو بار بار شانوں کی عجیب جنبش کے ساتھ سکیڑ لی جاتی تھیں۔ آپ نے کاندھوں کو جنبش دی اور ایک قدم آگے بڑھ کر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا’’کنکر پڑ گیا ہے کیا؟‘‘ اور اثبات میں جواب پا کر دیوی کی طرف بڑھے۔ ہیرو اور ولن کو ایک طرف ہٹنے کا اشارہ کرکے آپ نے کہا۔‘‘پانی سے آرام نہیں آیا۔۔۔ خیر۔۔۔ رومال ہے کسی کے پاس؟‘‘ نصف درجن رومال ان کے ہاتھ میں دے دیئے گئے۔ بڑے ڈرامائی انداز میں آپ نے ان پیش کردہ رومالوں میں سے ایک منتخب کیا، اور اس کا ایک کنارہ پکڑ کر دیوی کو آنکھ پر سے ہاتھ ہٹالینے کا حکم دیا۔ جب دیوی نے ان کے حکم کی تعمیل کی، تو انھوں نے جیب میں سے مداری کے سے انداز میں ایک چرمی بٹوا نکالا اور اس میں سے اپنا چشمہ نکال کر کمال احتیاط سے ناک پر چڑھالیا۔ پھر چشمے کے شیشوں میں سے دیوی کی آنکھ کا دور ہی سے اکڑ کر معائنہ کیا۔ پھر دفعتاً فوٹو گرافر کی سی پھرتی دکھاتے ہوئے آپ نے اپنی ٹانگیں چوڑی کیں اور جب انھوں نے اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے دیوی کے پپوٹوں کو وا کرنا چاہا تو ایسا معلوم ہُوا کہ وہ فوٹو لیتے وقت کیمرے کا لینس بند کررہے ہیں۔ ***

یہ تحریر تصنیف سید کے 23 جولائی 2015ء کو ایک بلاگ میں شائع کی تھی۔ 
انٹر نیٹ پر مطالعہ کے دوران نظر سے گزری، تو آپ کےلیے یہاں پیش کر دی۔
پڑھیے اور لطف اٹھائیے، 
یہ تحریر تصنیف سید کے بلاگ پر  پڑھنے کےلیے لنک پر کلک کریں۔ 
http://mantostories.blogspot.in/2015/07/actress-ki-aankh.html?view=classic 

ہمارے ساتھ فیس بک کے صفحے پر شامل ہونے کےلیے نیچے لنک پر کلک کریں۔ اگر لنک نہیں کھلتا تو یہ ایڈریس کاپی کر کے ایڈریس بار میں پیسٹ کریں۔

مکالمہ نگاری

اس صفحےپر مڈل اور میٹرک کے طلباء کے لیے مکالمہ لکھنے کے متعلق معلومات اور چند نمونے موجود  ہیں۔
آپ ان نمونوں کی مدد سے خود بھی مکالمہ لکھ سکتے ہیں۔
مکالمہ در اصل دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان کسی موضوع پر باہمی گفت و شنید (بات چیت ) ہوتی ہے، ہر فرد اپنی معلومات اور تجربے کی بناء پر دلیل سے بات کو معتبر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

آپ  کے نصاب میں کئی طرح کے مکالمے شامل ہیں ، آپ کی سہولت کےلیے یہاں بھی کچھ مکالمے لکھ رہا ہوں ، امید ہے آپ ان سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ 

منیاری کی دکان پر گاہک اور دکاندار کے درمیان مکالمے کےلیے یہاں کلک کریں۔   یا نیچے تصویر پر کلک کریں۔ 
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    
گاہک اور سبزی فروش کے درمیان مکالمے کےلیے یہاں کلک کریں۔ اگر لنک نہ کھلے تو نیچے تصوری پر کلک کریں۔



گاہک اور ہوزری والے کے درمیان مکالمے کےلیے یہاں کلک کریں۔ اگر لنک نہ کھلے تو نیچے تصوری پر کلک کریں۔


سادگی پسند عالم چنا کی قد آور کہانی Alim Channa

سادگی پسند عالم چنا کی قد آور کہانی


عالم چنا جنرل ضیاء الحق سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 25 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا۔

مکمل مضمون پڑھنے کےلیے اوپر دی گئی تصویر پر کلک کریں یا یہاں سے پڑھیے۔ 

فحش کون: منٹو یا معاشرہ؟

امریکی شاعرہ مرئیل رکائسر نے کہا ہے کہ یہ کائنات ایٹم سے نہیں بلکہ کہانیوں سے بنی ہوئی ہے۔
کہانیاں یا افسانے ہمیں نہ صرف معاشرے میں رائج رجحانات کے بارے میں بتاتے ہیں، بلکہ یہ تاریخی واقعات اور حالات کو بیان کرنے کے لیے ایک ایسی بہترین صنف ہے جس کے ذریعے ایک افسانہ نگار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسی ایسی شاہکار تحریروں کو جنم دیتا ہے جن کا اثر صدیوں تک جاری رہتا ہے۔
کبھی یہی افسانے تمثیل میں لکھے جاتے ہیں تو کبھی تلخ حقائق کو نرم الفاظ کا لبادہ پہنا کر بیان کیا جاتا ہے، اور ایک شاہکار افسانہ قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے. 
مکمل تحریر پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں،    یا اخبار کے صفحے پر  یہاں سے پڑھیے