کلاس دہم علی بخش، Ten Class Urdu Ali Bakhash

کلاس دہم اردو                                        سبق- علی بخش 
قدرت اللہ شہاب 
سبق علی بخش قررت اللہ شہاب کی خود نوشت ہے۔ وہ زبان و بیان پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا اسلوب سادہ ہے اور ان ان کی تحریروں میں جازبیت اور دلکشی پائی جاتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب لکھے ہیں کہ، 
ایک روز کسی کام سے لاہور آیا تو خواجہ عبالرحیم سے ملاقات ہوئی باتوں باتوں میں انہوں نے ذکر کیا کہ علامہ اقبال کے وفادار ملازم علی بخش کو ان کی خدمات کے سلسلے میں حکومت نے لائل پور میں ایک مربع زمین دی لیکن کچھ لوگوں نے اس زمین پر قبضہ جما رکھا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے گزارش کی کہ  میں اس کو زمین دلوانے میں مدد کروں۔ 
میں نے ہامی بھر لی۔ 
خواجہ صاحب مجھے لے کر جاوید اقبال منزل پہنچے اور علی بخش سے میرا تعار کرواتے ہوئے بتایا کہ تمھیں تمھاری زمین کا قبضہ لے کر دیں گے۔ مگر تمھیں ان کے ساتھ جھنگ جانا ہوگا۔ علی بخش نے سن کر جانے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کےلے جاوید کو چھوڑنا مشکل تھا۔ مگر بعد میں ایک دو دن کے لیے جھنگ جانے پر راضی ہو گیا۔
علی بخش مصنف کے ساتھ کار میں دوران سفر پہلے تو خاموش رہا اور مصنف نے بھی خود علامہ اقبال کے متعلق سوال کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مگر کچھ دیر بعد ایک سینما کے سامنے رش دیکھ کر کہنے لگا کہ مسجدوں کے سامنے تو اتنا رش نہیں ہوتا، ڈاکٹر صاحب بھی ایسے ہی کہتے تھے۔ مصنف نے ایک جگہ سے پان خریدا تو کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب کو پان پسند نہیں تھے۔ ان کو حقہ پسند تھا۔ جب ان کی گاڑی شیخوپورہ سے گزری تو کہنے لگا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کو ان کے تحصیل دار دوست نے یہاں بلوایا اور سیخ کباب سے دعوت کی۔ پھر وہ بتانے لگا کہ ڈاکٹر صاحب کو آم بھی پسند تھے مگر وفات سے چھے سال پہلے گلا خراب ہونے کی وجہ سے کھانا پینا کم کر دیا تھا۔
پھر علی بخش کسی نشے کی سی کیفیت میں علامہ اقبا ل کی موت کا حال بتانے لگا کہ ان کی رحلت والے روز علامہ اقبال کی طبیعت خراب تھی ان کو فروٹ سالٹ پلایا کہ شاید ان کی حالت میں بہتری ہو مگر پانچ بج کر دس منٹ پر ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں نیلی روشنی کی چمک نظر آئی اور منہ اس اللہ ہی اللہ نکال اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ 
یہ واقعہ سنانے کے بعد علی بخش خاموش ہو گیا اور مصنف نے خود سوال کیا کہ کیا وہ اقبال کا کوئی شعر سنا سکتا ہے؟ 
علی بخش نے پہلے انکار کیا پھر کبھی اے حقیقت منظر والا سنایا۔ اس کے کہنے کے مطابق ڈاکٹر صاحب بھی یہی شعر گنگنایا کرتے تھے۔ علی بخش نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اکثر رات کو دو ڈھائی بجے وضو کر کے مصلے پر بیٹھ جاتے تھے۔ اکثر ان کو رات کو زور دار جھٹکا لگتا تھا۔ ایسی حالت کےلیے ڈاکٹر صاحب نے علی بخش کو گردن اور کندھے زور زور سے دبانے کی ہدایت دی تھی۔ اس طرح وہ ٹھیک ہو جایا کرتے تھے۔ 
علی بخش نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر کے خرچ کا حساب کتاب اس کے ذمے تھا اور وہ کفایت سے کام لیتا تھا۔ سفر میں ہوتا تو اکثر بھوکا رہتا مگر ڈاکٹر صاحب ناراض ہو کر کہتے کہ ضرورت کے مطابق خرچ کر لینا چاہیے۔ 

No comments:

Post a Comment