سجاد حیدر یلدرم
”تاریخ ادب اردو“ میں رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
” سید سجاد حیدر نثر افسانہ نما خوب لکھتے ہیں۔ عبارت بہت دلفریب اور ا س میں ایک خاص طرح کی نشتریت ہوتی ہے۔“
بقول قاضی عبدالغفار:
” سجاد اردو زبان میں ایک نئے اور ترقی پسند اور بہت ہی دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے اور اس لیے وہ خراجِ تحسین کے حقدار ہیں۔“
اردو افسانے کی باقاعدہ ابتداء کا سہرا یلدرم کے سر ہے۔ ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔
خیالستان میں انشائیے ،
انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔
رومانیت:۔
رومانیت کے بنیادی اصولوں میں تخیل کی فراوانی ، ماضی پرستی ، روایت سے بغاوت ، جوش و جذبہ اور محبت شامل ہیں لیکن سجاد حیدر یلدرم کی رومانیت کا جو تصورنظر آتا ہے اس کی ایک جداگانہ حیثیت ہے۔جو دوسرے رومان نگار ادیبوں سے مختلف ہے۔ ان کے ہاں رومان ہمیشہ اضطراب اور ہیجان کا باعث ہے جب کہ سجاد کا رومان ، سکون کا باعث ہے۔ جذبات کی مصوری میں یلدرم کو ملکہ حاصل ہے ۔ ان کے افسانوں میں جذبہ محبت ، رومانیت کا پرتو لیے ہوئے ہے۔ وہ عشق اور اس کے جذبات کی تحریک کے لیے ہمیشہ رومانی پس منظر کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں اور عموماً یہ کام چاند اور اس کی رومان پرور فضاءسے لیتے ہیں۔ ان کے رومان کی روح رواں عورت ہے ان کے نزدیک عورت مرکز محبت ہے وہ عورت کو محبت سے الگ کرکے دیکھتے ہی نہیں۔ اولیت:۔ یہ بات امر مسلمہ ہے کہ یلدرم کو اردو افسانے میں اولیت کا شرف حاصل ہے وہ رومانی دبستان کے سرخیل ہیں اور ان کی بنائی ہوئی راہ پر چل کر معروف و نامور ادیبوں نے اردو افسانے میں اپنے شاہکار پیش کیے۔اردو افسانوی ادب میں ان ادیبوں کے بیش بہا فن پاروں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ فن اور اسلوب کے لحاظ سے ان کے افسانے رومانی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اردو افسانے کی ترقی و فروغ میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ابتداً اردوافسانے کی دلچسپی انہی (یلدرم کے مقلد افسانہ نگاروں ) کی مرہون احسان ہے۔ رومانوی افسانہ نگاروں نے ایک تو افسانے کو مقبو ل عام بنانے میں بڑی خدمت انجام دیں اور دوسرے انہوں نے تخیل کی فسوں کاریو ں سے جذبات محبت کو اتنے رنگین انداز میں افسانے کا موضوع بنایا کہ نئی نسل دل و جان سے افسانے میں دلچسپی لینے لگی۔ اس طرح جہاں افسانہ مقبول ہوا وہاں نئے افسانہ نگار میدان میں اترے ۔دبستان یلدرم کے افسانہ نگاروں نے اردو میں مختصر افسانے کے امکانات کو وسعت اور وقعت دی۔ منظر نگاری ، مکالمہ نویسی اور وحدت تاثر افسانے کی فنی خصوصیات ہیں اور یلدرم نے اردو افسانہ کے ان عناصر پر بہت توجہ دی اور یلدرم کے دبستان سے متعلق لکھنے والے رومانوی افسانہ نگاروں نے ان ابتدائی نقوش کی روشنی میں بڑے خوبصورت اور جاذب نظر افسانے لکھے بقول ایک نقاد: ”یلدرم کو بجا طور پر فخر حاصل ہے کہ انہوں نے افسانے کے ابتدائی خدوخا ل راست کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کے افسانے سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی پڑھے جائیں تو تاثیر کے اعتبار سے و ہ قاری کی توجہ جذب کرنے میں قاصر نہیں رہتے۔“
افسانوں کا بنیادی موضوع:۔
یلدرم علی گڑھ یونیورسٹی کے فار غ التحصیل اور تہذیب یافتہ تھے ۔ ان کی ادبی زندگی علی گڑھ سے پیدا ہوئی۔ انہیں سرسید اور علی گڑھ سے بے حد عقیدتاور غایت درجہ انس تھا۔ مگر اس سب کے باوجود یلدرم نے اپنی افسانوی تحریروں میں اس تحریک کی خشک حقیقت پسند ی اور بے نمکی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اس مقصد کے لیے یلدرم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے افسانے کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کریں جو دلچسپ بھی ہو اور زندگی کے ساتھ اس کا گہرا واسطہ بھی ہو۔ محض خیالی اور خوب کی دنیا نہ ہو بلکہ اس میں اپنے عہد کی جھلک نظرآئے ۔ اس مقصد کے پیش نظر اور اپنے مزاج کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے ، یلدرم نے بطور خاص محبت اور عورت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔
عورت:۔نسوانی کردار
یلدرم نے اپنے افسانوں میں عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ۔ اور اس کا یہ پہلو کہ عورت ، مرد کی بہترین رفیق ہے اس لیے یلدرم کے نزدیک اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے ¿ جو بہترین رفیق کے لیے موزوں اور مناسب ہے۔ یلدرم اس بات کے بھی قائل تھے کہ عورت کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری اور نامکمل ہے۔عورت یلدر م کے ہاں عیاشی اور گناہ کا مظہر نہیں ،لطافت اور زندگی کے صحت مند تصور کی علامت ہے۔یلدرم کے ا س نقطہ نگاہ سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں:
١۔ عورت اور مرد کاباہمی تعلق فطرت کا تقاضا ہے۔
٢۔ مرد اورعورت کے باہمی تعلق میں سچی محبت کا ہونا ضروری ہے۔
٣۔ اور یہ کہ عورت اورمرد کی سچی محبت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب ہم یلدرم کے افسانوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں.
یہ تینوں چیزیں واضح طور پر ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کے پہلے افسانے ”خارستان و گلستان “میں فطرت کے جذبوں اور مرد اورعورت کے درمیان تعلق کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔
”عورت!
عورت! ایک بیل ہے جو خشک درخت کے گرد لپیٹ کر اسے تازگی ، اسے زینت بخش دیتی ہے۔ وہ ایک دھونی ہے کہ محبت کی لپیٹ سے مرد کو گھیر لیتی ہے۔ بغیر عورت کے مرد سخت دل ہو جاتا ۔اکھل کھرا بن جاتا۔ اسی طرح محبت کے راستے میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے کی کوشش ”صحبت ناجنس “ میں نظر آتی ہے۔ حجاب اور وضع داری:۔ جیسا کی معلوم ہے یلدرم انشاءپردازی میں رومانوی نقطہ نظر رکھتے ہیں مگر روایتی رومان نگاروں کی طرح سستی جذباتیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ وہ معاشرتی دبائو اور پابندیوں کو عموماً پیش نظر رکھ کر لکھتے ہیں اور عشق اور رومان سے مملو کہانی لکھتے وقت وہ زندگی کے ”واقعی “ پس منظر کو نظر انداز نہیں کرتے ۔یلدرم نے عورت اور مردکو اس کا فطر ی حق دلانے کے لیے ایسے فنی حربوں سے کام لیا ہے کہ نہ ان کے مقصد ہی پر حرف آئے اور نہ خود ان پر معاشرتی اقدار اور اخلاقی پابندیوں اور قواعد کو توڑنے کا الزام آئے ۔ یہی فنی وسیلہ اور تجربے کا امتیاز اردو افسانے کو ان کی دین اور عطا ہےں۔ ہمارا معاشرہ مشرقی ہے اور ہم یہ جانتے ہیں ہوئے بھی کہ مرداور عورت کے جنسی تعلقات کی کیا نوعیت ہے ان کے بیان اور اظہار میں ایک حجاب اور وضع داری پر قائم ہیں۔ یلدرم نے ان کا احترام کرتے ہوئے بھی ”ان کہی “ کہنے کے لیے جو ایک سے زیادہ راستے نکالے ہیں،اپنے افسانوں میں ترکی پس منظر کا استعمال اور تخیل سے ماضی کا سفر اور داستانوی اسلوب انہیں عریانیت سے دور لے جانے میں مدد دیتا ہے۔
مقصدیت:۔
معاشرتی اصلاح اور فلاح و بہبود میں عورت کے کردار کا یلدرم پورا شعور رکھتے تھے۔ ڈپٹی نذیراحمد کے ہاں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے کہ عورت کی تعلیم اور اس کی اصلاح کے بغیر قومی فلاح و بہبود کا تصور ناممکن ہے۔ مگر یلدرم کا طریق کار اپنی پیش رو ادیبوں سے مختلف ہے۔وہ لمبی لمبی تقرریں نہیں کرتے ، وہ واعظ اور خطیب بھی نہیں بنتے بلکہ و اصلاحی مقصد حاصل کرنے کے لیے ادبی طریق کار اختیار کرتے ہیں۔ عورتوں کی ترقی اور ان کی تعلیم کے سلسلے یلدرم کا حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ان کے افسانے ”ازدواج محبت “ میں موثر طور پرموجود ہے۔ افسانے کا ہیرو نعیم تعلیم نسواں کا حامی ہے اور ان کی ترقی کا خواہاں۔ وہ اس مقصد کے لیے ہیرو ، واعظ ، ناصح یا مقرر بننےکی بجائے اس کار ِ خیر کے لیے اپنی جائیداد وقف کرتا ہے۔
نعیم کے مکالمے ملاحظہ ہوں:
” عزم یہ ہے کہ کل جائیداد( مالیتی ایک لاکھ ) عورتوں کی تعلیم کے واسطے وقف کر دوں۔“ ”جب محمڈن یونیورسٹی بنے تو ایک کالج خاص طور پر مسلمان عورتوں کے لیے تیار کیا جائے۔“
ترکی زبان کا اثر:۔
ہمارے مشرقی معاشرہ میں آج بھی محبت کرنا جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ یلدرم نے آ ج سے تقریباً سو سال پہلے ان معاشرتی اور مذہبی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور اتنی دلیری اور دھڑلے سے لکھا کہ آ ج کے آزاد خیال معاشرے میں اتنا کھل کر لکھنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔اس سلسلے میں ان کی ترکی زبان اور ادب کے ساتھ شناسائی بڑی کارآمد ثابت ہوئی۔ ترجمے کی اوٹ میں یلدرم وہ کچھ کہہ گئے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان کی ترکی دانی کا اثر تھا کہ انہیں ترکی میں سفیر لگا دیا گیا۔ وہاں انہوں نے ترکی ادبیات کا گہرا مطالعہ کیا۔
برصغیر کے ادیب اگرچہ انگریزی پڑھ لکھ رہے تھے مگر وہ مغربی اسالیب اور اظہار کو اپنے ادب کا جزو نہیں بنا سکے ۔ ترکی ادب نے یہ منزل طے کر لی تھی۔ یلدرم مغربی ادب کی باریکیوں سے آگاہ تھے اور ترکی دان ہونے کی وجہ سے ترکی پر مغربی ادب کے اثرات کے زیر اثر جو اثرات مرتب ہو رہے تھے اس سے بھی آگا ہ تھے ۔ اسی لیے انھوں نے ترکی ادب کو اردو میں منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
انشائے لطیف:۔
انشائے لطیف یا ادب لطیف ، رومانی انداز فکر کی سحر کاری کا دوسرا نام ہے ۔ افکار کی بلندی ، تخیل کی رنگینی اور جذباتی تاثر کی آمیزش سے جو ادب پارہ وجود میں آتا ہے وہ ادب لطیف ہے ۔ اسے سادہ الفاظ میں نثر میں نثری شاعری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔انشائے لطیف کے اولین ادیب سجاد حیدر یلدرم ہی ہیں۔ کیونکہ یلدرم نے اس روایت کو باقاعدہ ایک دبستان کی حیثیت عطا کی ۔ان کے افسانوں میں اسی نثر ی شاعری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔ ” خارا کو ایسی خوشی حاصل ہو رہی تھی جو اس نے تمام عمر میں اب تک محسوس نہیں کی تھی او راس نشے سے اُس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل رہی تھیں۔ آغوش کھلی ہوئی تھی ، سینہ سانس کی وجہ سے ابھر رہا تھا اور دل ایک ننھی سی چڑیا کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔“
جذبے کی متانت:۔
سجاد حیدر یلدرم کی نثر میں ایک بات بہت ہی واضح ہے کہ وہ جذبات کی رو ،اور،روانی میں بھی اپنے ادبی وزن اور وقار کو بہنے نہیں دیتے ۔ یلدرم کے جذبات کچھ زیادہ تیز اور تند نہ تھے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جس کے ہاں خیالات کی رعنائی ہو اس کے ہاں جذبات کا ہیجان اور شدت ویسے بھی کم ہو تی ہے۔ پھر بھی جہاں کہیں ایسی صورت حال پیدا ہوئی ، سجاد کی معمولی کوشش نے ان کو معتدل کر دیا۔ اس طرح مطلب بھی ادا ہو گیا اور شرم و حیا اور شرافت کا دامن نہ چھوٹا۔
یلدرم نے اپنی تحریروں کو خیال کی رنگینی و نزاکت کے ساتھ جذبے کی متانت و عفت کو جس طرح متوازن رکھا ہے کسی اور سے نہ ہو سکا۔ اسلوب:۔ یلدرم کومشرقی تہذیب اور تمدن سے گہرا لگائو ہے اور اس کا اظہار بھی ان کی تحریروں میں قدم قدم پر ملتا ہے۔ زبان دلکش اور لطیف ہے۔ اس کے باوجود ان کا وضع کردہ تراکیب غیر مانوس اور ناہموار ہیں۔مگر ان کا ذمہ دار یلدرم کو نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ انہیں جو اسلوب تحریر اختیار کیا وہ رومانی تھا اور رومانی انداز تحریر کی روایت ہمارے ادب میں موجود نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود یلدرم نے اردو نثر کو ایک نیا کیف دیا۔ نیا ترنم ، نیا آہنگ اور وزن بخشا جس نے خوابیدہ جملوں کو جگایا اور ایک مجہولی کیفیت جو مقصدیت کے زیر اثر چھائی ہوئی تھی ، دور ہو گئی ۔الفاظ کی دریافت ، مرکبات کی تعمیر میں یلدرم نے عربی، فارسی سے بھی استفادہ کیا۔ مرکبات بنانے کا شعور انہوں نے ترکی زبان سے حاصل کیا جو اردو کی طرح ایک امتزاج زبان ہے۔ یلدرم کے ہاں ہلکا مزاح اور دھیما اور خوشگوار طنز ہے۔ اس کے علاوہ تنقید بھی ہے اور اصلاح بھی ۔ تنقید خوشگوار لہجے میں ہوتی ہے اور اصلاح بار نہیں ہوتی ۔”مجھے میرے دوستوں سے بچائو“ اور ”صحبت ناجنس“ جیسے افسانوں میں ان کے اسلوب بیان کی داد دینی پڑتی ہے ۔ اسلوب کی انفرادیت:۔ سجاد کی ادبیات میں ان کا مخصوص انداز نگارش بہت نمایاں ہے ۔ ترجموں میں بھی اور ان کے طبع زاد افسانوں میں بھی ۔ غالب کی طرح انہوں نے بھی الفاظ کی نئی نئی تراکیبیں ایجاد کیں اور ایک نیااسلوب بیان ایجاد کیا اور دو دو چار چار لفظوں کے طبعزادمرکبات میں قوت بیان کی تما م شدت کو مرکوز کر دینے کا ایک نیا انداز اختیار کیا۔ ان کے اس ایجاد پسندی کو ترکی ادب سے خاصی مدد ملی ۔مگر اردو زبان میں بیان پر عبور ہونے کی وجہ سے بظاہر مشکل مرکبات کو اس طرح گھپایا کہ وہ موسیقی سے ہم آہنگ ہو گئے ۔ گویا ان سے ترنم کا کام لیا گیا ۔ یہی ان کامخصوص انفرادیت تھی۔مثال کے طور پر ”میں نے اپنی زندگی ، اپنی عصمت ،اپنی تمام دنیائے امید ، تمہارے قدموں پر نثار کر دی، تم نے انہیں کیا کیا ؟ ان میں سے ہر ایک ایک بڑی مکافات ، ایک بڑی بڑی قیمتوں کی ارزش رکھتی تھی۔ کہاں ہے ان کی مکافات؟“ یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ۔ اور دبستان یلدرم کا سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے ہمارے افسانے کے اندر موجود ہے ۔
اُن کے بارے میں ایک نقاد کا قو ل ہے کہ:
” یلدرم کا یہ کمال دنیائے افسانہ میں ہمیشہ یادگار رہے گا کہ وہ جو بات جس ڈھنگ سے کرتے ہیں وہ اتنی پر تاثیر ہوتی ہے کہ اس سے ماسوا ، خیال جاتا ہی نہیں ۔ ان کا رومان اپنے اندر انجذابی کیفیت رکھتا ہے کہ حقیقت فراموش ہو جاتی ہے اور یہی یلدرم کے فن کی معراج ہے۔“
No comments:
Post a Comment